طالبان کی پیش قدمی، قندھار میں بھارتی قونصل خانے کا عملہ واپس

قندھار شہر کے قریب شدید لڑائی کے باعث وہاں مقیم بھارتی اہلکاروں کو عارضی طور پر نکال لیا گیا ہے، بھارت کا قونصل خانہ مقامی عملہ چلا رہا ہے: بھارتی وزارت خارجہ۔

طالبان نے جمعے کو افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا  جسے افغان حکومت نے مسترد کر دیا (روئٹرز فوٹو)

افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے جاری انخلا کے دوران طالبان کی بڑھتے ہوئے حملوں اور ملک کے بیشتر حصوں پر قابض ہونے کے بعد بھارت، چین نے اپنے شہریوں اور آسٹریلیا نے اپنے فوجیوں کو جنگ زدہ ملک سے نکالنا شروع کر دیا ہے۔

بھارت نے اتوار کو اعلان کیا ہے کہ اس نے جنوبی افغانستان کے سب سے بڑے شہر قندھار کے طالبان کے کنٹرول میں چلے جانے کے پیش نظر وہاں اپنے قونصل خانے سے بھارتی اہلکاروں کو واپس بلا لیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت  کی وزارت خارجہ کے چیف ترجمان اریندم باغچی نے ایک بیان میں کہا: ’قندھار شہر کے قریب شدید لڑائی کے باعث وہاں مقیم بھارتی اہلکاروں کو عارضی طور پر نکال لیا گیا ہے۔‘

باغچی نے مزید کہا: ’بھارت افغانستان میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔‘

ان کے مطابق قندھار میں بھارت کا قونصل خانہ عارضی طور پر مقامی عملہ چلا رہا ہے۔

بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعے کو تشدد میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ ملک کی صورت حال کا براہ راست اثر علاقائی سلامتی پر پڑتا ہے۔

طالبان نے جمعے کو افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ افغان سرکاری عہدے داروں نے اس دعوے کو پروپیگنڈا مہم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

بھارت کے ساتھ ساتھ چین نے بھی افغانستان میں غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر اپنے شہریوں کا انخلا شروع کر دیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق ایمرجنسی چارٹرڈ سروسز فراہم کرنے والی ایئر لائن نے کہا ہے کہ چین نے افغانستان سے اپنے 210 شہریوں کو نکال لیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جمعرات کو جاری ہونے والی ایک پوسٹ کے مطابق ’زیامین ایئرلائن‘ کی ایک پرواز کے ذریعے دو جولائی کو چینی شہریوں کو دارالحکومت کابل سے ووہان منتقل کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پوسٹ میں مزید بتایا گیا کہ ووہان لائے گئے چینی شہریوں میں سے 22 افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی تھی اگرچہ ایئر لائن نے پرواز کے اور لینڈنگ کے دوران ’وبائی امراض کی روک تھام کے اقدامات‘ کیے تھے۔

چینی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ دنوں میں چین واپس لائے گئے شہریوں میں کرونا وائرس کے مریض شامل ہیں تاہم وزارت نے انخلا کے بارے میں مزید تفصیلات بتائے بغیر تمام چینی شہریوں سے افغانستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔

چین کے قونصلر امور کے محکمہ نے بدھ کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’افغانستان میں چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بیجنگ حکومت نے افغانستان میں اپنے شہریوں کو جلد از جلد افغان سرزمین چھوڑنے کی ہدایت کی ہے اور ہم اس کے لیے ضروری مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘

صدر بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ خطے میں دو دہائیوں کے خوں ریز اور طویل ترین جنگ کے بعد امریکی فوجی 31 اگست تک افغانستان سے چلے جائیں گے۔

حالیہ ہفتوں میں جب طالبان نے شمالی افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا ہے، حکومت کے زیر کنٹرول چند صوبائی دارالحکومتوں پر بھی طالبان کے قبضے کا خوف بڑھ رہا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں بیجنگ نے واشنگٹن کی جانب سے جلد بازی اور افراتفری میں کیے جانے والے انخلا پر کڑی تنقید کی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے جمعے کو معمول کی بریفنگ میں کہا: ’امریکہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو نظرانداز کرتے ہوئے عجلت میں افغانستان سے فوجی دستے واپس بلا رہا ہے اور پیچھے افغان عوام اور خطے کے ممالک لیے جنگ اور مسائل چھوڑ رہا ہے۔ افغان مسئلے کا اصل مجرم ہونے کے ناطے امریکہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ہے۔‘

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی اگلے ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں روس، بھارت، پاکستان اور متعدد وسطی ایشیائی ممالک کے ہم منصبوں کے ساتھ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔

دوسری جانب آسٹریلیا کے وزیر دفاع نے اتوار کو افغانستان کی 20 سالہ جنگ میں اپنے ملک کی شمولیت کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی واپسی ’حالیہ ہفتوں میں‘ عمل میں لائی گئی ہے۔

آسٹریلیا نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے انخلا کے امریکی فیصلے کی طرح ستمبر تک اپنی بقیہ فوجیں بھی نکال لے گا۔

اے ایف پی کے مطابق وزیر دفاع پیٹر ڈٹن نے سکائی نیوز کو بتایا کہ آسٹریلیا کے آخری 80 معاون اہلکار بھی ’حالیہ ہفتوں میں‘ افغانستان سے نکال لیے گئے ہیں۔

آسٹریلیا نے افغانستان میں طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف امریکی اور نیٹو تنظیم کی زیرقیادت کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے گذشتہ 20 سالوں میں اپنے 39 ہزار فوجی تعینات کیے تھے۔

اس مشن پر ملک کے اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور 41 آسٹریلوی فوجی ہلاک ہوگئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا