افغانستان کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقے سپن بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان فورسز اور طالبان میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جس میں زخمی ہونے والے طالبان کو بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن کے ضلعی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ جھڑپوں میں ایک بھارتی صحافی کی ہلاکت بھی اطلاعات ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے رابطہ کرنے پر محکمہ صحت کے ایک سینئیر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جھڑپ میں طالبان زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 22 کو چمن لایا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کا علاج معالجہ جاری ہے۔
یاد رہے کہ قندھار میں پاکستانی سرحد سے متصل سپن بولدک میں سرحدی دروازے پر طالبان نے گذشتہ دنوں قبضہ کرلیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندوں کے مطابق بھی درجنوں طالبان جنگجوؤں کا علاج پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب موجود اس ضلعی ہسپتال میں کیا جا رہا ہے۔
جبکہ افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق افغان افواج اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں خبر رساں ادارے روئٹرز کے صحافی دانش صدیقی بھی جان سے گئے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے دانش صدیقی علاقے کی صورت حال کی کوریج کے لیے قندھار میں موجود تھے۔
Danish Siddiqui, a Reuters photojournalist, was killed in clashes in Spin Boldak district in Kandahar, sources confirmed.
— TOLOnews (@TOLOnews) July 16, 2021
The Indian journalist was covering the situation in Kandahar over the last few days. pic.twitter.com/VdvIRGAEa3
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کا سلسلہ جاری ہے اور طالبان نے قبضے کے بعد پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند کردیا تھا، تاہم گذشتہ روز پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد طالبان نے پیدل لوگوں کو افغانستان میں جانے کی اجازت دی تھی۔
دوسری جانب بلوچستان کےوزیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے سپن بولدک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہماری فورسز الرٹ ہیں اور اضافی نفری چمن بارڈر پر بھجوا دی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امید ہے ماضی کی طرح اب بھارت کے زریعے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ہم دعا گو ہیں کہ نئی تبدیلیاں دونوں ممالک کے لیے خوشگوار ہوں۔
چمن میں موجود طالبان جنگجو ملا محمد حسن کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک شخص ہلاک ہوا ہے جب کہ ہمارے درجنوں جنگجو زخمی بھی ہو چکے ہیں۔‘
بارڈر پر یہ جھڑپ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان اور کابل حکومت کے درمیان افغان نائب صدر کے پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کے الزام کے بعد بیان بازی جاری ہے۔ پاکستان نے افغان نائب صدر کے اس باین کو مسترد کر دیا ہے جب کہ پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے اپنے علاقے میں موجود فوجیوں اور شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں۔‘
بیان میں افغان حکومت کے اپنے علاقوں میں کارروائی کے حق کو بھی تسلیم کرنے کا کہا گیا ہے۔
بدھ کو طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقے سپن بولدک کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی قصبے کے بازار میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد ظاہر نامی رہائشی کا کہنا ہے کہ ’وہاں بہت زیادہ جنگ ہو رہی ہے۔‘
ایک جانب جب افغانستان کے مختلف علاقوں میں حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں تو دوسری جانب رواں ہفتے کے اختتام پر اسلام آباد میں افغانستان پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے حوالے سے طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔
دوحہ میں کئی مہینوں سے تعطل کے شکار مذاکرات بھی دوبارہ شروع ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے قریبی ساتھی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کانفرنس کو موخر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اس کانفرنس کو موخر کر دینا چاہیے کیونکہ مذاکرات کار پہلے ہی دوحہ روانہ ہو رہے ہیں۔