’مرکزی شہروں پر قبضہ نہیں ہوگا ‘: طالبان کی پالیسی بدل رہی ہے؟

 افغان طالبان نے اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں میں کسی قسم کی جنگ نہیں کریں گے بلکہ حکومتی ذمہ داران سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

افغان طالبان کے ’دعوت اور رہنمائی کمیشن‘ کے سربراہ ڈاکٹر متقی کا کہنا ہے کہ طالبان نہیں چاہتے کہ مرکزی شہروں میں کاروباری زندگی اور تجارت متاثر ہو (اے ایف پی)

 افغان طالبان نے اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں میں کسی قسم کی جنگ نہیں کریں گے بلکہ حکومتی ذمہ داران سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں  پر ’قبضے‘ کے حوالے سے طالبان نے پالیسی بیان گذشتہ روز ایک ویڈیو کے ذریعے دیا۔

افغان طالبان کے ’دعوت اور رہنمائی کمیشن‘ کے سربراہ امیر خان متقی کی جانب سے ویڈیو پیغام میں افغانستان کے علما، بااثر شخصیات، حکومتی ذمہ داران اور سرکاری ملازمین پر واضح کیا گیا ہے کہ اطراف میں جنگ مکمل ہو جائے تو مرکزی شہروں میں افغان طالبان کی جنگ کرنے کی کوئی  پالیسی نہیں ہے۔

امیر خان متقی نے مزید کہا ہے کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ مرکزی شہروں میں کاروباری زندگی اور تجارت متاثر ہو، صحت  کے مراکز بند ہو جائیں اور عام لوگ متاثر ہوں۔‘

’ہم بااثر شخصیات کو باور کرانا چاہتے کہ وہ سامنے آئیں اور حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بات کر کے اپنی مرضی سے حکومتی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جائیں تاکہ حکومتی مشینری اسی طرح چلتی رہے اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔‘

امیر خان متقی نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ’جس طرح اضلاع میں طالبان کی جانب سے کسی قسم کی تخریب کاری اور نہ کسی کو نقصان پہنچایا گیا اور (انتظامی امور  کا کنٹرول سنبھال لیا) تو اسی طرح طالبان چاہتے ہیں کہ مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے مرکزی شہروں کا کنٹرول بھی سنبھال لیں۔‘

’افغان طالبان نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ لوگ جو افغان پارلیمان کے ممبران ہیں یا سینیٹرز ہیں ان کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اداروں کے کام میں کوئی دخل ہو اور سب کچھ ٹھیک طریقے سے چلتا رہے۔‘

اس سارے معاملے پر بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ طالبان کی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی ہے جبکہ دیگر سمجھتے ہیں کہ یہ طالبان کی ایک حکمت عملی ہے تاکہ عالمی ممالک کی طرف سے ان پر کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔

گذشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے اور ماضی میں وہاں پر جنگوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک بات یہ ہو رہی ہے کہ افغان طالبان اگست تک امریکہ کے ساتھ کوئی مفاہمت ہوئی ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومتوں پر ’قبضہ ‘ نہیں کریں گے۔

رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا ہے کہ ماسکو میں پاکستان، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک میں ایک نشست ہوئی تھی جس میں طالبان سے کہا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم نہ کریں جس پر طالبان کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آیا تھا۔ اس پر پاکستان سے خفگی کا اظہار کیا گیا تھا، کیونکہ پاکستان نے بھی کہا ہے کہ وہ اس حکومت کو مانیں گا جو عوام کی حکومت ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پڑوسی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے بھی طالبان چاہتے ہیں کہ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیں۔ جب اطراف اور دور دراز کے اضلاع پر قبضے کیے جائیں تو ظاہری بات ہے نقل مکانی مرکزی شہروں کو ہوگی جس کی وجہ سے مرکزی شہروں میں موجودہ حکومت پر پریشر بڑھے گا اور طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی طالبان وہاں کے حکومتی گورنرز کو جرگہ بھیجتے تھے اور ان کو بات چیت اور اقتدار طالبان کے حوالے کرنے کا کہتے تھے، کچھ اضلاع میں ایسا ہوا بھی تھا کہ گورنرز نے مرضی سے اقتدار طالبان کے حوالے کر دیا تھا۔‘

موجودہ صورتحال میں بھی ایسا ایک واقعہ سامنے آیا تھا جس میں افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہوئی جس میں وہ افغانستان کے ضلع بادغیس کے رکن اسمبلی کو دھمکی دے رہے تھے کہ وہ طالبان کو مرضی سے اقتدار سونپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس آڈیو کے سامنے آنے کے بعد اسی رکن اسمبلی کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے امر اللہ صالح کے الزامات کی تردید کی تھی۔

اسلام آباد میں موجود افغان امور کے تجزیہ کار و صحافی طاہر خان طالبان کی اس پالیسی کو ایک دوسرے تناظر سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس پالیسی بیان سے وہ قیاس آرائیاں کہ طالبان مرکزی شہروں پر قبضے کا نہیں سوچ رہے ہیں، وہ ختم ہو گئی ہیں، کیونکہ اس پالیسی بیان کا دوسرا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ اگر اشرف غنی کی حکومت اقتدار طالبان کے حوالے نہیں کرتے تو طالبان مرکزی شہروں پر بھی ’قبضہ‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ماضی میں طالبان نے جب افغانستان کی حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اس وقت بھی ان کی یہی پالیسی رہی تھی؟ اس کے جواب میں طاہر خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا جبکہ طالبان کی جتنی کمیونیکیشن تھی وہ پشاور سے میڈیا کو جاری ہوتی تھی، تو اگر اس وقت یہ پالیسی تھی بھی تو وہ عوام تک نہیں پہنچتی تھی۔

’اب طالبان بہت آسانی سے اپنے بیانات اور اس طرح کی پالیسی عوام اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں، جس کا واضح مطلب عوام کو یہ بتانا ہے کہ طالبان پرامن طریقے سے اقتدار لینا چاہتے ہیں تاکہ بعد میں وہ مخالفین کو یہ جواب دے سکیں کہ ہم نے تو پرامن طریقے سے پہلے حکومت کو آگاہ کیا تھا۔‘

کیا افغان طالبان پر پڑوسی ممالک کا واقعی کوئی دباؤ ہے؟ اس پر طاہر خان نے بتایا کہ اس بارے میں افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی ایک انٹریو میں اشارہ دیا تھا کہ طالبان جو ابھی اضلاع پر قبضے کی بات کر رہے ہیں وہ دراصل اپنا پلڑا بھاری کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

’مرکزی شہروں کے بجائے اضلاع پر قبضے کا مطلب یہی ہے کہ اگر وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو ان کو یہی بتائیں گے کہ نصف افغانستان ہمارا اور نصف آپ کے قبضے میں ہے، تو کس طرح موجودہ حکومت اقتدار میں ہے۔‘

افغان طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا افغانستان کے تقریباً 421 اضلاع میں سے 150  سے زائد پر قبضہ ہے۔ تاہم اس دعوے کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے لیکن افغان حکومت نے کچھ اضلاع کے بارے میں بتا دیا ہے کہ وہاں پر ریسوسرز کی کمی کی وجہ سے افغان سکیورٹی فورسز کو واپس بلا لیا گیا ہے۔

افغانستان کے دارلحکومت کابل میں حالات کیسے ہیں؟

کابل میں مقیم افغان صحافی انیس الرحمان کے مطابق افغانستان میں ایک طرف اگر دور دراز اضلاع پر طالبان قبضہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب مرکزی شہروں میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔

انیس الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کابل میں کیفے، مارکیٹس، جمز سمیت تمام دکانیں کھلی ہیں اور کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’حکومتی ادارے بھی معمول کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں لیکن میڈیا میں ایسا دکھایا جا رہا ہے جیسے پورے افغانستا ن میں جنگ کا سماں ہے اور لوگ گھروں تک محصور ہیں۔‘

دوسری جانب مرکزی شہر کابل میں حامد کرزئی ائیرپورٹ کی سکیورٹی ذمہ داری ترک افواج کے سپرد کرنے کی طالبان نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہوگا جس کی اقوام متحدہ اور پوری دنیا نے توثیق کی ہے جس میں ترکی بھی شامل ہے۔

طالبان کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ترک حکمرانوں نے امریکی مطالبے اور فیصلے پر ہمارے ملک میں اپنی افواج کی تعیناتی اور جارحیت کے تسلسل کا اعلان کیا ہے جو ترکی کے عوام اور حکمرانوں کے بارے میں ہمارے ملک میں نفرت اور دشمنی کے جذبے کو بھڑکا دے گا جس سے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا