کابل: طالبان کی افغانستان میں عسکری پیش قدمیاں بڑی تیزی سے جاری ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے تقریباً 160 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ قبضے میں آنے والے سو سے زیادہ اضلاع افغانستان کے شمالی صوبوں میں ہیں جو نائن الیون سے قبل افغان طالبان کے مخالف شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ رہے ہیں۔
صوبہ بدخشاں اور تخار کے تمام اضلاع طالبان کے کنٹرول میں ہیں جس میں ضلع فرخار بھی شامل ہے جو نائن الیون سے پہلے طالبان کے مخالف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے زیر قیادت شمالی اتحاد کا مرکز تھا۔
طالبان نے افغانستان کے ایران، ترکمانستان اور تاجکستان سے لگنے والے اہم سرحدی تجارتی مراکز اور بندر گاہوں پر بھی قبضہ کیا ہے جن میں سرفہرست اسلام قلعہ، تور غونڈی، نصر فراہی اور شیر خان بندر ہیں۔
طالبان چھوٹے لیکن موثر گروپس کے ساتھ شمال مغرب اور شمال مشرق میں داخل ہونے میں کامیاب رہے ہیں اور اپنا اثر و طویل عرصے سے رسوخ بڑھاتے رہے ہیں۔
اگر افغانستان میں طالبان کی حالیہ پیش قدمی کو دیکھا جائے تو اس کےچار اہم عوامل نظر آتے ہیں۔
اول، افغان سکیورٹی فورسز کو امریکی ہوائی بمباری کی حمایت حاصل رہا کرتی تھی۔ طالبان کا پلڑا بھاری ہونے کے صورت میں افغان فوج کے دفاع کے لیے اور طالبان کو روکنے کے لیے اپنے فضائی قوت کے زور سے پیش قدمی سے روکنے میں کامیاب رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ امریکی فوج جنگ میدان میں موجود افغان فوجیوں کو فضا سے خوراک اور دیگر لوجیسٹک امداد بھی پہنچاتے تھے۔
دوئم، وہ افغان فوجی جو صوبہ بدخشان اور شمال کے دیگر علاقوں میں طالبان کے گھیرے میں آگئے تھے ان کو کابل کی طرف سے بروقت فوجی اور دیگر ضروری امداد نہ پہنچ سکی جس کی وجہ سے وہ پسپائی یا طالبان کو تسلیم ہونے پر مجبور ہو گئے۔
سوئم، افغان فوجی اور دیگر سیکورٹی اہل کاروں نے اپنی جان کی امان پانے کے لیے لڑنے کی بجائے طالبان کی عام معافی کے اعلان سے فائدہ اُٹھایا جس کے تحت طالبان ہر تسلیم شدہ اہلکار کو نقد مالی امداد، نئے کپڑے اور پھولوں کے ہار دے کر بغیر حساب کتاب اور قید کے اپنے گھروں کو بھجواتے ہیں۔ طالبان نے اس عام معافی کا سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور پرچار کیا جس کی وجہ سے فوجی اہلکار ان کو بغیر جنگ کیے تسلیم ہوتے گئے۔
آخری یعنی چوتھی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ طالبان شمالی صوبوں میں عرصہ دراز سے اپنی تنظیم سازی اور افراد بھرتی میں مصروف تھے۔ اس کے ساتھ طالبان نے شمالی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجک اور ازبک افغان باشندوں کو اپنے صٖفوں میں نہ صرف جگہیں دیں بلکہ ان کو اہم سیاسی اور عسکری قیادت کی ذمہ داریاں بھی دیں جس سے طالبان کو ان علاقوں میں کافی عوامی اثر رسوخ ملا۔
مستند ذرائع کے مطابق طالبان نے فقط اسلام قلعہ کے تجارتی مرکز سے 30 لاکھ امریکی ڈالرز نقد اور تقریباً دو سو ملین کے تجارتی مواد اور وسائل پر قبضہ کیا ہے۔
ادھر افغان امن مذاکراتی عمل میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی اور طالبان کے مخالف کمانڈر انفرادی طور پر اپنے لوگوں کو ان کے خلاف مزاحمت پر ابھار رہے ہیں، جیسا کہ صوبہ ہرات میں طالبان مخالف اہم کمانڈر اسمعیل خان نے اپنے حامی کمانڈروں کے ساتھ طالبان کی پیش رفت کے خلاف مزاحمت شروع کی ہے جس میں وہ طالبان کے خلاف کچھ کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے کابل میں سفیر منصور احمد خان نے ہفتے کو عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو مضبوط کرنے میں مدد کریں۔
منصور احمد نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا کہ افغانستان میں طالبان سے لڑنے کے لیے جنگجو دھڑوں کو استعمال کرنے سے ملک کی پہلے سے خراب صورتحال مزید ابتر ہو جائے گی۔
’اگر جنگجو دھڑوں اور طالبان کے درمیان کسی قسم کی جنگ شروع ہو گئی تو یہ خطرناک ہوگا۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ ان حملوں کے دفاع اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی حکومتی صلاحیت بہتر بنائی جائے۔‘
پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کی حمایت میں مزید عالمی تعاون کی ضرورت ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’اس وقت افغانستان کی قانونی حکومت ہے۔ اس لیے تمام ملکوں اور عالمی برداری کو چاہیے کہ وہ سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں افغانستان کی ہر ممکن مدد کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پاکستان میں مہاجرین کی تازہ لہر کا سبب بن سکتی ہے۔
’اگر افغانستان کے حالات بگڑتے رہے تو سرحد کے آر پار دونوں معاشروں کے درمیان ثقافتی اور مذہبی قربت کی وجہ سے مہاجرین پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
’ہماری پہلی کوشش یا توجہ حالات کو اس سمت میں جانے سے روکنے پر مرکوز ہے۔‘
ان کا اصرار تھا کہ افغانستان میں جاری لڑائی کا مسئلہ صرف سیاسی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔
’ایسا سیاسی حل جو وسیع البنیاد اور جامع ہو اور اس میں تمام فریق شامل ہوں وہ نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے تمام ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہو گا۔‘