’کیا میں کل زندہ بچ پاؤں گی؟‘ افغان فوٹو گرافر خوف کا شکار

ردا اکبر کی بنائی گئی حیرت انگیز تصاویر ان کی آزادی اور ورثے کی علامت ہیں لیکن افغانستان میں یہی فن اب ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔

خاتون فوٹوگرافر ردا اکبر کی بنائی گئی حیرت انگیز تصاویر ان کی آزادی اور ورثے کی علامت ہیں لیکن افغانستان میں یہی فن اب ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔

33  سالہ ردا کو ملک کی کچھ طاقتور خواتین شخصیات کی تصاویر کی نمائش آن لائن کرنا پڑی کیوں کہ انہیں اس حوالے سے سنگین دھمکیاں مل رہی تھیں۔

افغانستان میں میڈیا سے وابستہ افراد، ججوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت اعلیٰ سطح پر کام کرنے والی خواتین ان 180 سے زائد افراد میں شامل ہیں، جنہیں گذشتہ سال ستمبر کے بعد سے چن چن کر قتل کیا گیا ہے۔ امریکی اور افغان حکام نے ان ہلاکتوں کا  ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔

ردا اکبر نے طالبان کے بارے میں کہا: ’ہم بہت کم ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو مار کر وہ ہم سب کو خاموش رہنے پر مجبور کردیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’وہ ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ اگر آپ یہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو قتل کردیا جائے گا۔‘

اپنے بیشتر دوستوں کی طرح ردا کے اب کوئی معمولات زندگی نہیں اور انہوں نے ملک میں اپنی نقل و حرکت محدود کردی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہم ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں کہ ایسا کرنا ہی ٹھیک ہے، ہمیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ہمیں بے مقصد نہیں مرنا۔‘

جنگجوؤں اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات معطل ہونے کے بعد طالبان نے افغان افواج کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

امریکی اور نیٹو افواج نے گذشتہ ہفتے ہی ماضی میں طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے والے بگرام ایئر بیس کو خالی کر دیا تھا۔ افغانستان میں 20 سال کی فوجی مداخلت کے بعد امریکہ افغانستان سے انخلا میں عجلت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

میکسیکو سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ فریدہ کہلو کی طرح ردا اکبر کی بنائی گئی اپنی بیشتر تصاویر (سیلف پورٹریٹس) میں انہیں قبائلی طرز کا تاج اور سونے چاندی کے زیورات پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ وہ افغانستان میں روزمرہ کی زندگی کی حیرت انگیز تصاویر کے لیے بھی مشہور ہیں۔

خواتین کے عالمی دن منانے کے لیے انہوں کے کابل کے سابق شاہی محلات میں نمائش کا اہتمام بھی کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال انہوں نے غیر معمولی شخصیات کی تصویر کشی کے لیے مینیکیونز (ملبوسات کی نمائش کے لیے استعال ہونے والے مجسمے) کا استعمال کیا جس میں خاتون فلم ساز، خاتون فٹ بالر اور روکھشنا نامی خاتون جن کو جبری شادی سے فرار ہونے پر طالبان نے سنگسار کر دیا تھا، کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اس سال انہوں نے ابرزانان (سوپر ویمن) کی تصاویر کی ورچوئل نمائش کی جسے کابل میوزیم میں رکھی گئی خالی کرسیوں کے ساتھ نشر کیا گیا۔

ردا کی پانچ بہنیں ہیں، جن میں افغان انڈپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ شہرزاد اکبر بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنے والدین جن میں سے ایک مصنف اور ایک ٹیچر ہیں، کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

ردا غیر معمولی طور پر دس سال سے کابل کے ایک اپارٹمنٹ میں تنہا زندگی گزار رہی تھیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ’افغانستان اب زیادہ قدامت پسند بن گیا ہے۔ ماضی میں افغان معاشرے میں فن اور نجی شعبے میں خواتین نے اہم کردار ادا کیے تھے اور انہیں زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔‘

لیکن طالبان کی آمد کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔ 1979 میں سوویت حملے کے خلاف لڑائی کا آغاز امریکیوں نے کیا تھا۔

سوویت کی پسپائی اور خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور سخت ترین نظام حکومت کے تحت خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی عائد کردی۔

ردا کہتی ہیں کہ مغرب میں اکثر خواتین کو مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا ہے اور وہ اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ان کا کہنا کہ افغان خواتین کی تاریخ امریکیوں کی 2001 میں آمد کے بعد شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ ’ہمارا ایک طویل اور شاندار ماضی ہے جس میں خواتین نے ہمیشہ اپنا حصہ ڈالا ہے۔‘

جب بین الاقوامی برادری افغانستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں دعویٰ کرتی ہے تو ردا کو سخت مایوسی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے بقول ایک بااختیار اور جدت پسند افغان خاتون کو اکثر انگریزی بولنے یا ان کے مغربی لباس سے شناخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’وہ (مغرب) ہماری ثقافت پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ نوآبادیات کی ایک اور شکل ہے۔‘

اب خواتین اور انسانی حقوق کی ضمانت کے بغیر ملک سے امریکی فوجوں کے انخلا سے ردا مایوسی کا شکار ہیں۔

وپ کہتی ہیں کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اثر ان کی ذہنی صحت، ان کے دھیان اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر پڑا ہے۔

’مجھے لگتا ہے کہ میں ان دنوں موت کے بہت قریب ہوں۔ کیا میں کل زندہ بچ پاؤں گی؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر