طالبان اقوام متحدہ سے منسلک افغان خواتین کو دھمکیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں: رپورٹ

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق مئی میں درجنوں خاتون کارکنوں کو کھلے عام موت کی دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

افغان خواتین آٹھ مارچ 2023 کو کابل میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہی ہیں (اے ایف پی)

اتوار کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکمران اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی درجنوں خواتین کو دی جانے والی موت کی کھلی دھمکیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

طالبان نے دسمبر 2022 میں افغان خواتین کو اندرون ملک اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ چھ ماہ بعد انہوں نے اس پابندی کو اقوام متحدہ تک بڑھا دیا اور ایسی ایجنسیوں اور تنظیموں کو بند کرنے کی دھمکی دی، جنہوں نے اب بھی خواتین کو ملازمت پر رکھا ہوا تھا۔

امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی یا مداخلت کی، تاہم طالبان حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے مشن نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا کہ مئی میں درجنوں مقامی خاتون کارکنوں کو کھلے عام موت کی دھمکیاں دی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق نامعلوم افراد نے یہ دھمکیاں اقوام متحدہ کے افغانستان میں معاونت مشن (یو این اے ایم اے) اور دیگر ایجنسیوں، فنڈز اور پروگراموں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے دیں، ’جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کو ان کی حفاظت کے لیے عبوری اقدامات کرنا پڑے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان نے اقوام متحدہ کے مشن کو بتایا کہ ان کے اہلکار ان دھمکیوں کے ذمہ دار نہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

وزارت داخلہ سمیت افغان حکام نے رپورٹ یا تحقیقات کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ امدادی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والی افغان خواتین کو موت کی دھمکیوں کی پہلی باضابطہ تصدیق ہے۔

رپورٹ میں خواتین کی شخصی آزادی اور حفاظت کو متاثر کرنے والے دیگر پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا۔ صوبہ ہرات میں وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے انسپکٹروں نے خواتین کو چادر اوڑھنے کا حکم دینا شروع کر دیا۔

ایسا نہ کرنے والی درجنوں خواتین کو بازاروں میں داخل ہونے یا عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی خواتین کو اس وقت تک حراست میں رکھا گیا جب تک کہ ان کے رشتے دار ان کے لیے چادر نہیں لے آئے۔ اورزگان میں خواتین کو برقعے کی بجائے صرف سر پر دوپٹہ لینے پر گرفتار کر لیا گیا۔

خواتین کو ایسے قوانین کے تحت عوامی مقامات تک رسائی سے بھی روکا گیا جو ان کو ایسی جگہوں پر جانے سے روکتے ہیں۔

صوبہ غور میں پولیس نے کئی خاندانوں کو تفریحی علاقے سے زبردستی نکال دیا جبکہ پولیس نے خاندانوں کو خواتین کے ساتھ تفریحی مقامات پر جانے سے خبردار کیا۔

ہرات میں وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے انسپکٹروں نے ایسے خاندانی گروپوں کو کھلے تفریحی مقامات پر جانے سے روک دیا جن میں خواتین اور لڑکیاں شامل تھیں۔

انہوں نے صرف ایسے گروپوں کو وہاں جانے کی اجازت دی، جن میں صرف مرد تھے۔

وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کسی بھی اہلکار سے غور، ہرات اور اورزگان میں پیش آنے والے ان واقعات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں مل سکا، جن کے بارے میں اقوام متحدہ نے بتایا کہ یہ مئی میں پیش آئے۔

قندھار میں صحت عامہ کے شعبے نے خاتون طبی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ کام پر جانے کے لیے مرد سرپرست کو ساتھ لائیں، جس کے پاس ایسا شناختی کارڈ ہونا چاہیے جو یہ ثابت کرے کہ اس کا خاتون کے ساتھ خونی رشتہ ہے یا وہ خاتون کا خاوند ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ کارڈ صرف قندھار کے لیے مخصوص ہے یا پورے افغانستان میں لاگو کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’محرم (مرد سرپرست) کے شناختی کارڈ کے لیے درخواست کا عمل بظاہر سست رو ہے اور اس میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں کیوں کہ اس کے لیے محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مقامی برادری کے ایک فرد (جیسے کہ ملک، امام یا گاؤں کے بزرگ) کو اس تعلق کی تصدیق کرنا ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین