پشاور میں پھلتا پھولتا ’منی امرتسر‘

پشاور کے محلہ جوگن شاہ میں نہ صرف صوبے کے طول و عرض بلکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع سے بھی سکھ برادری تیزی سے منتقل ہو رہی ہے۔

محلہ جوگن شاہ کی گلیوں میں کھیلتے بچے ہوں یا بوڑھے اور جوان مرد، ان کے سروں پر بندھی پگڑی اور سکھ دھرم والی داڑھی دیکھ ایک خوش کن احساس ہوتاہے کہ قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق پشاور کے دل میں سکھ برادری پوری آزادی کے ساتھ بے خطر رہ رہی ہے (تصاویر: ابراہیم خان)

پشتونوں اور سکھوں کی سادہ لوحی دنیا بھر میں مشہور ہے جس کو بنیاد بنا کر ان دونوں اقوام کے بارے میں کئی چٹکلے بنا لیے گئے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے بھی ایک لطیفہ ان دونوں اقوام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔پشتونوں اور سکھوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ یہ لطیفہ من وعن رقم کیا جا رہا ہے۔

لطیفے میں سوال پو چھا جاتا ہے کہ ’قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کو منظور ہوگئی تھی تو پھر بٹوارے میں سات سال اور پانچ ماہ کیوں لگے؟‘ اس سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ’اس عرصے میں کانگریس اور مسلم لیگی قیا دت اس با ت پر جھگڑتی رہی کہ پٹھان اور سکھ کس ریاست کے حصے میں آئیں گے؟‘ لطیفہ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اقوام کے بغیر پا کستان کا ذکر مکمل نہیں ہوتا۔

یہ دونوں اقوام خیبر پختونخوا کے انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں تو ایک عرصے تک اکٹھی رہ رہی تھیں لیکن اب اس انفرادیت کا ایک عملی نمونہ پشاور کی گنجان ترین قدیم آبادی محلہ جوگن شاہ بنتی جا رہی ہے، جہاں سکھ اور پٹھان دونوں مل کر پیار اور محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

محلہ جوگن شاہ میں ان اقوام کا اکٹھ نیا نہیں بلکہ یہ امتزاج ایک عرصے سے موجود تھا لیکن یہاں سکھوں کی تیزی سے آبادکاری دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی مرہون منت ہے۔گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ برائی کے بطن سے یہ خوش کن تبدیلی واقع ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکھ برادری کی اس نقل مکانی کی بنیادی وجہ بھی نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی عالمی جنگ ہے، جس کے آغاز میں امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے دہشت گرد براستہ قبائلی علاقہ جات پاکستان میں آئے۔ ان جنگجوؤں کا پڑاؤ قبائلی علاقہ جات بنا تو وہاں موجود مقامی آبادی، جس کی اکثریت مسلمان تھی، کو بھی حالات بگڑنے پر وہاں سے کوچ کرنا پڑا۔

اس نقل مکانی کی لپیٹ میں وہاں مقیم اقلیتیں بھی آئیں جن میں خیبر ایجنسی،کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں مقیم سکھ برادری کی ایک بڑی تعداد نے بھی حالات کی سنگینی کی وجہ سے پشاور کی طرف رخت سفر باندھا۔

 پشاور کی اس قدیم آبادی میں داخل ہوتے ہی کسی منی امرتسر یا جالندھر کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یہاں گلیوں میں کھیلتے بچے ہوں یا بوڑھے اور جوان مرد ان کے سروں پر بندھی پگڑی اور سکھ دھرم والی داڑھی دیکھ ایک خوش کن احساس ہوتاہے کہ قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق پشاور کے دل میں سکھ برادری پوری آزادی کے ساتھ بے خطر رہ رہی ہے۔ محلہ جوگن شاہ کی گلیوں میں کھیلتے اور سکول سے نکلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ جیسے شہر کی اس قدیم آبادی میں ایک منی خالصتان وجود میں آرہا ہے۔ یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ دکاندار بھی سکھ ہیں تو خریداروں کی اکثریت بھی سکھوں کی ہے۔ جوگن شاہ میں نہ صرف صوبے کے طول و عرض بلکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع سے بھی سکھ برادری تیزی سے منتقل ہو رہی ہے۔

جو گن شاہ تقسیمِ ہند سے پہلے کا روایتی محلہ ہے جو اپنی پُر پیچ گلیوں کی وجہ سے پہلے ہی سے مشہور تھا۔ اس محلے کی گھومتی، بل کھاتی گلیاں اس کے محل وقوع کو زیادہ ممتاز بناتی ہیں، جس کو فوری طور پر سمجھنا آسان نہیں۔ بہرحال اس مخصوص محل وقوع نے بھی سکھوں کی یہاں منتقلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مخصوص محل وقوع کی وجہ سے یہاں سیکیورٹی کے اقدامات اٹھانے زیادہ آسان تھے۔ جوگن شاہ میں اگرچہ سکھ برادری کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، اس کے باوجود بعض گلیاں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں۔ محلہ جوگن شاہ میں ابھی مقامی مسلمان آبادی بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہے تاہم پورے صوبے اور ضم شدہ اضلاع سے سکھ برادری دھیرے دھیرے یہاں منتقل ہو رہی ہے۔

محلہ جوگن شاہ میں واقع سکھ بچوں کے خصوصی بھائی جوگا سنگھ خالصہ دھارمک سکول کے نائب پرنسپل بلبیر سنگھ کے مطابق جوگن شاہ میں اس وقت 500 سے زائد گھر سکھ برادری کے ہیں، جن کی مجموعی آبادی لگ بھگ 13 ہزار نفوس بنتی ہے۔ بلبیر سنگھ کے اس دعوے کی پولیس تو تصدیق کر رہی ہے تاہم بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اعدادوشمار میں بہت زیادہ مبالغہ ہے۔ ان اعدادوشمار کو پرکھنے کی بحث کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو اہم بات یہ ہے کہ سکھ برادری پشاور کی آبادی میں ایک خوبصورت اضا فہ ہے۔

محلہ جوگن شاہ میں جو سکھ آکر آباد ہوئے ہیں، ان کا تعلق قبائلی اضلاع، سوات، بونیر اور مردان سے ہے۔ بلبیر سنگھ اپنی نقل مکانی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ خود خیبر ایجنسی کے رہائشی تھے جہاں شدت پسندوں نے براہ راست سکھ برادری کو تو کچھ نہیں کہا تاہم جن خطرات کا سامنا مقامی مسلمان آبادی کو تھا، کم وبیش وہی خدشات ہمارے بھی تھے اور جس طرح مسلمان آبادی وہاں سیکورٹی آپریشنز کی وجہ سے نکل گئی بالکل اُسی طرح ہمارے لوگوں نے بھی اپنا علاقہ چھو ڑ دیا حالانکہ ہم وہاں کئی نسلوں سے آباد تھے۔

پشاور میں سکھوں کی یہ منتقلی ہنوز جاری ہے۔ سکھ برادری کی اس منتقلی کی بھی تاریخ رقم ہوچکی ہے۔ پشاور کے قریب ترین اُن کی اچھی خاصی آبادی ضلع خیبر میں باڑہ اور تیراہ میں قیام پذیر تھی، جہاں سے ان کی پہلی نقل مکانی 80 کی دہائی میں شروع ہوئی لیکن یہ منتقلی سکھوں کے پشاور میں کاروبار شروع کرنے کی وجہ سے ہوئی۔ یوں غمِ روزگار سکھوں کو پشاور لے آئی اور یہاں جیسے جیسے ان کا  کاروبار جمتا گیا، ویسے ویسے سکھ برادری کی پشاور میں تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ پشاور میں جب سکھوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو اس منتقلی کے ساتھ ہی انہوں نے شہر میں موجود اپنی قدیم مگر بند عبادت گاہوں کو کھولنے کی بھی کوششیں تیز کردیں۔

پشاور میں دو قدیم گوردوارے موجود تھے اور اس اعتبار سے سکھ برادری کے پاس شہر میں بسنے کے لیے بھی دو ہی آپشن تھے، جن میں سے ایک محلہ جوگن شاہ تھا تو دوسرا آپشن قدیم آبادی کا محلہ جوگی واڑہ تھا۔

جوگی واڑہ میں گوردوارہ بھائی بی با سنگھ تھا جبکہ محلہ جوگن شاہ میں گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ تھا۔ اسی لیے سکھوں نے پُر پیچ گلیوں والی محلہ جوگن شاہ کی اس آبادی کو اپنا نیا مسکن بنایا۔ دوسری طرف محلہ جوگی واڑہ میں پُر پیچ گلیوں کی جگہ گوردوارہ بھائی بی باسنگھ کے اطراف میں وسیع و عریض گزر گاہیں ہیں، جس کی وجہ سے اُس وقت سکھوں کے کرتا دھرتاؤں نے محلہ جوگن شاہ کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پہلی منتقلی میں کاروباری اور متمول سکھوں نے نقل مکانی کی۔ ان سکھوں نے پہلے گوردوارہ بھائی جو گا سنگھ کی بحالی کا کام شر وع کیا۔

بلبیر سنگھ کے مطابق 1990 میں ہونے والی اس نقل مکانی میں لگ بھگ 50 خاندان پشاور آئے تھے اور انہوں نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ کو نہ صرف نئے انداز سے تعمیر کیا بلکہ سکھوں کی نئی نسل کو اپنے مذہب کی تعلیم کے لیے بھائی جو گا سنگھ خالصہ دھارمک سکول بھی قائم کیا۔

سکھوں کی یہ منتقلی 1990 سے لے کر 2000 تک سست روی کا شکار رہی لیکن جب قبائلی علاقہ جات میں حالات زیادہ مخدوش ہوئے تو بلبیر سنگھ کے دعوے کے مطابق 450 سے زائد خاندانوں نے سابق فاٹا سے پشاور نقل مکانی کی۔ اس نقل مکانی کے لیے پشاور میں پہلے سے بسے ہوئے سکھوں نے بہت سا ہوم ورک پہلے ہی کرلیا تھا۔ پشاور  آنے والے سکھوں نے محلہ جوگن شاہ کو اپنا بنانے کے لیے مقامی آبادی سے بہت سے گھر خرید لیے تھے۔

سکھوں میں اس محلے کے گھروں کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے ان تنگ گلیوں میں زمین کی قیمتیں انتہائی تیزی سے بڑھیں۔ پشاور میں پراپرٹی کے کاروبار  سے وابستہ حلقے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سکھوں کی جانب سے محلہ جوگن شاہ کے گھروں کی خریداری کی وجہ سے اس آبادی میں پراپرٹی کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں۔ یہاں بر سبیل تذکرہ یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ پشاور میں 2001 کے بعد سے قبائلی اضلاع سے نقل مکانی کا جو ریلہ آیا اس کی وجہ سے پشاور میں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، تاہم اندرون شہر کے قدیم رہائشی علاقوں کی قیمتوں میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا تھا لیکن محلہ جوگن شاہ پرانی سکونتی آبادیوں میں وہ واحد آبادی ہے جس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

مقامی حلقوں کے مطابق محلہ جوگن شاہ میں پچھلی تین دہائیوں سے جو بھی گھر فروخت ہو رہے ہیں ان میں سے زیا دہ تر کے خریدار سکھ ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ان بوسیدہ تاریک گلیوں کے گھروں کی منہ مانگے دام سے بھی زیادہ قیمت دیتے تھے اور دیتے ہیں۔ سکھ برادری محلہ جو گن شاہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر گھر خرید رہی ہے اور اب وہاں ان کے گھروں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ اسی وجہ سے جہاں سکھوں کے گھر زیادہ ہیں وہاں باقاعدہ ایک حصار قائم کردیا گیا ہے۔

جوگن شاہ میں اگرچہ مسلمانوں کے بھی گھر ہیں، تاہم اس کے باوجود سیکو رٹی کی وجہ سے بعض گلیوں کو عام آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ محلہ جوگن شاہ میں گوردوارہ بھا ئی جو گا سنگھ کے اطراف میں لگ بھگ سارے گھر ہی سکھ برادری کے ہیں۔ جوگن شاہ کے اس حصے کا اب ایک ہی انٹری پوائنٹ باقی رہ گیا ہے جہاں ہر آنے جانے والے اجنبی کا نام رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے، تاہم وہ لوگ جو یہاں مستقل آباد ہیں خواہ وہ سکھ ہیں یا مسلمان، وہ بغیر کسی لکھت پڑھت کے آجا سکتے ہیں۔

محلہ جوگن شاہ میں مسلمان اور سکھ دونوں مل کر رہ رہے ہیں اور مقامی آبادی کو ایک دوسرے سے کو ئی شکا یت نہیں۔ بلبیر سنگھ کے مطابق جوگن شاہ میں بسنے والی مسلمان آبادی سے ان کا اس قدر پیار ہے کہ ہر سال رمضان میں سکھ برادری افطاری کے وقت روزانہ شام کو مسلمانوں کی افطاری کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ بلبیر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی عید کے موقع پر سکھ مٹھائی لے کر ان کے گھروں کو مبا رکباد دینے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہاں بسنے والے مسلما ن ان کے مذہبی تہواروں بیساکھی اور بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر انہیں مبا رکباد دیتے ہیں۔

پشاور کے محلہ جو گن شاہ میں پھلنے پھولنے والے منی امرتسر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں سکھ برادری کی آبادی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا جس کی بنیادی وجہ تو گوردوارہ بھا ئی جوگا سنگھ ہے جہاں سکھ برادری کے مرد و زن آزادانہ صبح شام اپنی عبادت کرتے ہیں۔

سکھوں کے لیے پشاور میں دوسری کشش ان کا پشاور میں بڑھتا کاروبار ہے۔ پشاور میں سکھ برادری تجارت میں اب اپنا مقام بنا چکی ہے۔ سکھ کاسمیٹکس، کپڑے، حکمت، ادویات، کریانہ سٹور اور خاص کر موبائل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان شعبوں میں موبائل فون اور حکمت میں سکھ برادری نے مارکیٹ میں اپنا سکہ جما لیا ہے۔

سکھ برادری مالی طور پر اپنے کمزور لوگوں کو پشاور میں آباد کرانے میں بھی مدد کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کی زکوۃ کی طرز پر سکھوں میں ماہانہ آمدنی کا دس فیصد خیرات ادا کرنا لازمی ہے۔ اس خیرات کو دسونت کہا جاتا ہے۔ پشاور میں مقیم تمام سکھ باقاعدگی سے دسونت ادا کرتے ہیں جس سے ایک اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی ہے۔ اس رقم سے سکھ برادری مالی لحاظ سے کمزور سکھوں کی مدد بھی کرتی ہے۔ دسونت کی وجہ سے عام تاثر یہ ہے کہ سکھوں کی آبادی پشاور میں مزید پھیلے گی اور سکھ برادری صرف جوگن شاہ تک محدود نہیں رہے گی۔

جوگن شاہ کے علاوہ پشاور صدر میں بھی سکھوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔بلبیر سنگھ کے مطابق پشاور صدر میں بھی سکھوں کے 50 خاندان مقیم ہیں جو آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہیں۔ محلہ جوگن شاہ کے برعکس پشاور صدر میں سکھ دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ان کی جوگن شاہ جیسی موجودگی صدر میں نظر نہیں آتی۔

جوگن شاہ میں تو رفتہ رفتہ دکانداروں کی بھی بڑی تعداد سکھوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ جوگن شاہ کے ایک میڈیکل سٹور کے مالک گل جیت سنگھ نے بتایا کہ وہ یہاں ادویات کا کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے گاہک صرف سکھ ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں اور انہیں کاروبار کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت نے سکھ برادری کا بہت خیال رکھا جس کا اندازہ اس با ت سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکم اپریل 2016 کو محلہ جوگی واڑہ کے قریب 300 برس پرانا گوردوارہ بھا ئی بی با سنگھ کو دوبارہ عبا دت کے لیے کھول دیا گیا جبکہ جوگن شاہ میں نہ صرف سیکورٹی بہترین فراہم کی گئی ہے بلکہ ساتھ ہی اس حکومت کے دوران کی جانے والی قانون سازی کے تحت جو بھی اقلیت کسی علاقے میں آباد ہوگی اُس سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی پولیس میں بھرتی کی جائے گی۔

محلہ جو گن شاہ، جو تھانہ شاہ قبول کی حدود میں آتا ہے، میں جوگن شاہ کی سیکورٹی کے لیے دو سکھ کانسٹیبل بھی بھر تی کیے گئے ہیں۔ یہ قانون سازی تحریک انصاف کے مقتول ایم پی اے ڈاکٹر سورن سنگھ کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ ڈاکٹر سورن سنگھ نے ہی کوشش کرکے خیر آباد میں شمشان گھاٹ بھی بنوایا تھا۔ یہ آنجہانی ڈا کٹر سورن سنگھ ہی تھے کہ جن کی کوششوں کی وجہ سے سکولوں کے نصاب میں سکھوں سے متعلق قیامِ پا کستان کے وقت ان کے کردار کے بارے میں بعض ایسا مواد تھا، جس کو  پڑھ کر سکھ برادری کے خلاف مسلم آبادی کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ تھا، تاہم یہ حصہ نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے، جس پر سکھ برادری خوش ہے۔

پشاور میں مقیم سکھ برادری کی اچھی دیکھ بھال کے باوجود ان کے کچھ تقاضے بھی ہیں جن میں سے ان کا بڑا مطالبہ پشاور میں شمشان گھاٹ کا ہے تا کہ وہ یہاں اپنے مُردوں کو جلا سکیں۔ بلبیر سنگھ کے مطابق: ’ہمیں اُس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب مجبوراً ہمیں اپنے مردے کو دفنانا پڑے اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر یہاں شمشان گھاٹ بنایا جائے۔‘

مقامی پولیس کے مطابق سکھوں میں کسی کے خلاف کو ئی مقدمہ درج نہیں، تاہم جوگن شاہ کی آبادی کی سیکو رٹی کے لیے پانچ سیکورٹی اہلکاروں کی ہمہ وقت ڈیوتی ہوتی ہے جبکہ رائیڈر سکواڈ اور دیگر گشت اس کے علاوہ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جوگن شاہ میں کبھی بھی سکھ برادری کو بطور خاص کو ئی دھمکی نہیں ملی جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ لو گ انتہائی پر امن ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین