ناکامی شہباز کی یا عمران کی؟

ملک میں اس وقت جو معاشی عدم استحکام چل رہا ہے وہ پی ٹی آئی  کے لیے بظاہر مفید نظر آرہا ہے اور عمران خان اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ن لیگ مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے ساڑھے تین سالوں میں لینڈ مائنز بچھائی ہیں جبکہ تحریک انصاف اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ اپوزیشن کے گذشتہ ادوار پر ڈال رہی ہے (فائل تصاویر: اے ایف پی)

’ایسا گھاس گھپوڑو، نہ گدھا کھائے نہ گھوڑو،‘ اس وقت پاکستان کے حالات بھی اس کہاوت کے مصدق ہیں۔

مملکت خداداد پاکستان میں ایک ایسا بحران پیدا کیا گیا ہے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے اور حالات کو کس طرح مستحکم کیا جاسکے۔

رواں سال جب اپریل میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے چارج سنبھالا تو انہوں سب ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا اور لوگوں نے بھی ان سے امیدیں وابستہ کرلیں کہ شاید یہ اس معاشی بھنور سے ملک کو نکال کر ترقی کی راہ پر لے جائیں گے، لیکن آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہماری تجربہ کار حکومت بھی معیشت کو مستحکم کرنے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔

ہمارے تجربہ کار سیاست دان بھی پی ٹی آئی حکومت کی طرح برے حالات کا سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ ن لیگ مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے ساڑھے تین سالوں میں لینڈ مائنز بچھائی ہیں جبکہ تحریک انصاف اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ اپوزیشن کے گذشتہ ادوار پر ڈال رہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ گذشتہ کافی عرصے سے مسلسل اقتدار کا حصہ رہی، وہ بھی موجودہ حالات میں کوئی متاثر کن کارکردگی پیش نہیں کرپا رہیں۔

ملک اس وقت خطے میں سری لنکا کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی کا شکار ہے اور یہ باتیں بھی متواتر زیر گردش ہیں کہ پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جائے گا۔

ڈیفالٹ کا خطرہ بے شک نہ ہو لیکن حالات انتہائی نازک ہیں اور مہنگائی سے عام لوگوں میں بے حد اضطراب اور بے چینی دیکھی جاسکتی ہے۔

ملک کے حالات مسلسل سری لنکا کی طرح خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

معاشی صورت حال پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کمی سے چھ ارب 70 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں  اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے سبب سٹیٹ بینک بھی ایل سیز نہیں کھول رہی، جس سے خوراک سمیت دیگر اشیائے ضروریہ ملک میں درآمد کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں ادویات کی کمی بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک طرف زرمبادلہ میں کمی ہو رہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف سے بھی پیکج ملنے میں تاخیر کاسامنا حالات کو مزید گھمبیر کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف بھی ان حالات میں ہمارے گرد شکنجہ مزید کس رہا ہے اور ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے جمعے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے کمی تو کردی گئی ہے لیکن یہ کمی بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے اور اس سے کچھ خاص اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہے۔

ایسے حالات میں جب ملکی معیشت مکمل جامد ہوچکی ہے، تاجر طبقہ پریشان ہے، کسان بھی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر سقوط کا شکار ہیں۔ ایسے میں بھی حکمران سنجیدہ نظر نہیں آ رہے بلکہ وفاقی وزرا تو ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی ہی حکومت کے ڈیفالٹ کی داستانیں سنا رہے ہیں تو دوسری جانب ان کی جگہ متعین نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان کے اس روئیے سے قطعاً خوش نہیں بلکہ انہوں نے تو ان کے بیانات پر کھل کر برہمی کا اظہار بھی کیا اور اس کا ذکر وہ کابینہ میٹنگز میں وزیراعظم سے بھی کرچکے ہیں۔

اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کا جھگڑا ابھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک آمنے سامنے ہوگئے۔

مصدق ملک نے گذشتہ دنوں روس سے سستا تیل خریدنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن جمعرات کو بلاول بھٹو نے اس دعوے کی تردید کردی۔

کل جمعے کو مصدق ملک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روس سے سستا تیل خریدنے کے لیے تمام معاملات طے ہیں اور اس کی تفصیلات بھی جلد دی جائیں گی تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ 

ان باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی تجربہ کار حکومتیں ان حالات سے نمٹنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں بلکہ انہیں تو اس وقت سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ حالات کو کس طرح قابو کیا جاسکے۔ حکمرانوں کو پتہ نہیں چل رہا کہ معیشت کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔

ملک میں اس وقت جو معاشی عدم استحکام چل رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے لیے بظاہر مفید نظر آرہا ہے اور عمران خان اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان اس عدم استحکام کو بڑھانے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کے حالیہ بیانات میں ملک کے دیوالیہ ہونے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ان کی جانب اسمبلیوں سے استعفوں اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان، جو کہ آج 17 دسمبر کو ہونا ہے، بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل کے لیے نئی تاریخ کا اعلان آج شاید کر دیں لیکن اس فیصلے کا اطلاق عملی طور ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اس معاملے پر کافی کھینچا تانی سے کام لے رہے ہیں اور ق لیگ کی جانب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں بھی پی ٹی آئی کے لیے صورت حال مزید مشکل بنارہی ہیں کیونکہ ق لیگ جن حلقوں سے سیٹ مانگ رہی ہے، وہاں تحریک انصاف کے اپنے امیدوار خاصی اچھی پوزیشن پر ہیں جس سے پنجاب میں ان کی اپنی پوزیشن خطرے میں پڑ سکتی ہے اور اس سے جماعت کے اندورنی اختلاف بھی شدید ہوسکتی ہیں۔ تمام اسمبلیوں سے نکلنے پر ان کی اپنی جماعت میں خدشات موجود ہیں۔

موجودہ ملکی حالات میں کسی بھی سیاست دان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ کیا جائے۔ ان حالات پر ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ ‘کہنی میں سر تو سب نے دے دیا لیکن سب پھنس گئے۔‘

اب ان حالات میں سے کیسے نکلا جائے، نہ شہباز شریف کی سمجھ میں آرہی ہے، نہ ہی زرداری کچھ کر پا رہے ہیں۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا عمران خان آج 17 دسمبر کو اسمبلیوں کی تحلیل کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں یا وہ ایک دفعہ پھر لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر کھسک جائیں گے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان بند گلی میں اتر چکے ہیں اور ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا لیکن اس بند گلی میں ن لیگ، پی پی، اسٹیبلشمنٹ سمیت پورا ملک داخل ہوچکا ہے جس سے نکلنا کافی مشکل ہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے تو غیر سیاسی ہونے کا اعلان کردیا اور پی ٹی آئی نے بھی ان سے نیوٹرل ہونے کا مطالبہ کردیا لیکن موجودہ معاشی صورت حال کا تعلق براہ راست ملکی سلامتی سے پڑتا ہے تو اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو میدان میں آنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر ملکی سلامتی کی بات کی جائے تو افغانستان کی جانب سے سرحد پر ہونے والی جارحیت، بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کی مذموم کوششیں بھی حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے کارروائیوں میں تیزی بھی قومی سلامتی کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے ملک کا معاشی طور پر مستحکم ہونا نہایت اہم ہے اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ معاشی استحکام کے لیے صرف دوست ممالک کی مدد کافی نہیں ہے اس کے لیے حکومت کو پہلے سیاسی استحکام لانا ہوگا تاکہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔

دوست ممالک کب تک ہماری امداد کریں گے، کب تک ہم کشکول لیے دوسروں کے دروازوں پر دستک دیتے رہیں گے۔ ہماری قومی غیرت کب جاگے گی اور ملک کی بہتری کے لیے اقدامات پر مجبور کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر دیکھا جائے تو چیزیں اس وقت کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ نہ ہی عمران خان حالات کو بہتر کرنے کی ضمانت ہیں اور نہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے تجربہ کاروں سے کچھ بن پا رہا ہے۔

اسی طرح اسٹیبلشمنٹ منظرعام پر آکر اپنے آپ کو آلودہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اس وقت حالات کا سب سے بہتر حل مذاکرات ہی کی طرف جاتا ہے۔ اگر مذاکرات کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کا ایک اچھا خاصا سلسلہ صدر مملکت اور وفاقی وزرا کے مابین ملاقاتوں سے چلا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل پایا۔

پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر عارف علوی سے متعدد ملاقاتیں کیں، جو بے سود رہیں۔ اس کے بعد وفاقی وزرا ایاز صادق اور اعظم نذیر تارڑ صدر سے ملے لیکن ان ملاقاتوں کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کے متعلق کہا گیا کہ حکومت اس حوالے سے غیر سنجیدہ ہے۔

اس وقت سب سے بہتر عمل یہی ہے کہ سب مل کرایک جگہ بیٹھیں جس میں عمران خان، ن لیگ، پی پی سمیت تمام پارلیمانی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہوں اور سب مل کر ایک مشترکہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں جس سے ملک کا پہیہ چل سکے۔

جلد انتخابات اس صورت حال سے نکلنے کا سب سے بہتر اور موثر حل ہوسکتا ہے۔ انتخابات سے کم از کم سیاسی استحکام اور سکون آئے گا اور یہ حالات کو بہتری کی طرف گامزن ہونے میں ایک معاون قدم کی طرح کام آئیں گے۔

مذاکرات کے دوران ایک بات یقینی بنائی جائے کہ تمام جماعتوں خاص طور پر عمران خان اور پی ٹی آئی سے اس بات کی گارنٹی لی جائے کہ اگر نئے انتخابات ان کے حق میں نہ آئے تو وہ سازش اور دھاندلی کا شور مچا کر ملک بھر میں احتجاج نہیں کریں گے، جس سے ملک ایک دفعہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو۔

آئندہ انتخابات کے بعد دو صورت حال ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اگر انتخابات تاخیر سے یا اپنے وقت پر بھی ہوجاتے ہیں تو عمران خان انتخابات کو ملکی تاریخ کے متنازع ترین الیکشن بنا دیں گے کیونکہ وہ مسلسل قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دوسری صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کریں اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے باضابطہ قوائد بنائیں، جس سے یہ بات واضح ہو کہ جو ہارے گا وہ نہ صرف اپنی ہار کو تسلیم کرے بلکہ اپنے مخالف کے مینڈیٹ کا احترام کرے۔

اگر عوام عمران خان کو دوتہائی اکثریت سے اقتدار میں لاتی ہے تو اقتدار منتقل کیا جائے۔ اسی طرح ن لیگ کی جیت پر بھی نہ کوئی شور ہو، نہ احتجاج اور نہ ہی دھاندلی کا بیانیہ مرتب کیا جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ