عمران خان کی سیاست پر سوالیہ نشان؟

اگر عمران خان کو اپنی مقبولیت برقرار رکھ کر دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو انہیں اپنی سیاست باالخصوص سیاسی چالوں کی ٹائمنگ کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

عمران خان 24 مئی، 2018 کو اے ایف پی کو اسلام آباد میں انٹرویو دیتے ہوئے

گذشتہ چھ سات ماہ کی سیاست اور اہم شخصیات کے مختلف بیانات سے یہ حقیقت مزید واضح ہو چکی ہے کہ 2018 کے متنازع انتخابات میں کس طرح پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔

اسی منصوبہ بندی کے تحت پہلے ایک منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے باہر کر کے نااہل کروایا گیا۔

اس کے بعد دھڑا دھڑا موسمی پرندے پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروائے گئے۔ پھر دنیا نے آر ٹی ایس فیل ہوتے اور آخرکار عمران خان کو وزیراعظم بنتے دیکھا۔

مسلئہ لیکن یہ تھا کہ 90 دن میں کرپشن ختم کرنے، ’لوٹے گئے‘ 300 ارب ڈالر پاکستان واپس لانا، دو کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر جیسے بلند و بالا دعوے پورے نہ ہو پائے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کو وسیم اکرم بنا کر پیش کیا گیا لیکن پرفامنس اور گورننس کی دال کسی طرح گل نہ پائی۔

نتیجتاً بری پرفامنس کی ذمہ داری فوج کے کاندھوں پر یہ کہہ کر ڈالی گئی کہ آپ ہی لائے تھے لہٰذا اب معیشت اور گورننس کے ستیاناس ہونے کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔

فروری 2022 تک سیاست میں مداخلت کا اعتراف کر کے جنرل باجوہ نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی کہ نہ صرف عمران خان کو اقتدار دلوایا گیا بلکہ ساڑھے تین سال ان کے اقتدار کو دوام دینے کا ہر حربہ آزمایا گیا۔

چاہے اپوزیشن قیادت کو جیلوں میں ڈلوانا ہو یا ممبران اسمبلی کو باتھ روموں تک میں بند کر کے عمران خان کی حمایت پر مجبور کرنا ہو۔

اس سب کچھ کا ملک اور جمہوریت کو تو نقصان پہنچنا ہی تھا لیکن فوج کو بطور ادارہ بھی خود تحریک انصاف نے اس حمایت پر اتنا شرمندہ کروایا جو شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی اور پارٹی نے فوج کے ساتھ کیا ہو۔

عمران خان نے گذشتہ چھ ماہ میں فوج کو انہیں اقتدار میں لانے اور پھر حکومت چلوانے کا صلہ جس انداز میں دیا اسے ’احسان فراموشی‘ سے تعبیر کیا گیا۔

لیکن جو بھی ہوا اسے اب ان ڈو تو نہیں کیا جا سکتا لیکن فوج کا سیاست میں عمل دخل نہ کرنے کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ لیکن کیا ایسا ہو بھی پائے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

گذشتہ سات ماہ میں عمران خان کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انہیں جو ناقابل یقین سپورٹ ملی اسے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کیش کرنے میں ناکام رہے۔

نام نہاد امریکی سازش کے بیانیے پر انہی سطور میں تحریر کر چکا ہوں کہ یہ بیانیہ بیچ چوراہے پھوٹے گا اور ہوا بھی اسی طرح۔

قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان بھی بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں کیا گیا اور نتیجتاً آج خود پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتی ہے اور ایسا کرنا پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑی سیاسی شرمندگی ہو گی۔

اسی طرح عمران خان کا سب سے بڑا اور اہم مقصد جلد انتخابات کا حصول تھا کیونکہ وہ انہیں ملنے والی عوامی سپورٹ کو جلد از جلد کیش کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسی سیاسی چالیں چل گئے کہ انتخابات جلد ہونا تو دور کی بات شاید ان میں چند ماہ تاخیر ہو جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح لانگ مارچ کی ٹائمنگ سے بھی تاثر ابھرا کہ عمران خان کا اصل مقصد آرمی چیف کی تعنیاتی ہے ناکہ جلد انتخابات۔

لانگ مارچ کا آغاز تو وہ اچھا کر گئے لیکن مارچ کے اختتام پر عمران خان کا پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کا اعلان انہیں سیاسی فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان دے گا۔

 اس کی واضح مثال مونس الہیٰ اور پرویز الہیٰ کے انٹرویو ہیں جس میں وزیراعلیٰ پنجاب مارچ تک اسمبلی نہ توڑنے کی بات کر گئے۔

اب تحریک انصاف کے اندر یہ بات ہو رہی ہے کہ 10 سیٹوں کی پارٹی کو وزارت اعلیٰ دے کر خود اپنے پاؤں پر کیوں کلہاڑی ماری گئی؟

پرویز الہیٰ اس سے واضح الفاظ میں شاید ہی اسمبلی توڑنے سے انکار کر سکیں۔ لیکن ان کا انکار عمران خان کی فیصلہ سازی پر بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔

خان صاحب کو اگر اپنی مقبولیت برقرار رکھ کر دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو انہیں اپنی سیاست بالخصوص سیاسی چالوں کی ٹائمنگ کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

اگر وہ چند مزید ایسے فیصلے کریں جس سے انہیں سیاسی شرمندگی اٹھانی پڑے تو ’سوئنگ‘ ووٹر ان سے یہ سوچ کر دور ہوتا جائے گا کہ جو پارٹی سنجیدہ فیصلہ سازی ٹھیک سے نہ کر سکے وہ اقتدار میں آ کر ملک کیسے چلائے گی۔

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ