اب اصل مدعے پہ آ جائیں

اگر آپ بھول گئے ہوں تو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے اس سیلاب سے بے گھر لاکھوں پاکستانی اب بھی پیسے جوڑ رہے ہیں تاکہ اپنے مکان کا محض ایک کمرہ سر چھپانے کے لیے بنا سکیں۔

دریائے سوات کے کنارے واقع ایک ہوٹل کا ملبہ جو حالیہ سیلاب میں تباہ ہوگیا تھا (تصویر:سجاد)

یا اللہ ترا شکر کہ سیاسی ہلچل کو کچھ قرار آیا۔ گذشتہ دو ماہ سے قوم نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پہ سانس روکے ایک ٹانگ پہ کھڑی تھی، لگ بھگ عام انتخابات جیسا ہی ماحول بن گیا تھا۔ بہر حال خوبی یہ ہوئی کہ 2022 کے ختم ہونے سے پہلے پہلے یہ تعیناتی والا نازک موڑ خوبصورتی کے ساتھ ختم ہوا۔

اجازت ہو تو اب ایک بار پھر اصل مدعے کی جانب آنے کی گستاخی کی جائے؟ یہ سیلاب ہے جسے اس بار بھولنے میں ہم نے کچھ زیادہ ہی جلدی کر دی۔

اس برس جولائی سے مون سون کی جو بارشیں ہوئیں تھیں وہ پورا اگست برستی رہیں یہاں تک کہ ستمبر آگیا اور اپنے ساتھ سیلاب بھی لے آیا۔

قارئین کی یاد دہانی کے لیے مکرر عرض ہے کہ اس سال سیلاب سے پاکستان کے لگ بھگ 70 فیصد خشک اور آباد میدانی علاقے زیرِ آب آئے تھے۔ سندھ کے بعض علاقوں میں سیلابی پانی اب بھی جوہر اور تالاب بن کر کھڑا ہے۔

اگر آپ بھول گئے ہوں تو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے اس سیلاب سے بے گھر لاکھوں پاکستانی اب بھی پیسے جوڑ رہے ہیں تاکہ اپنے گھر کا محض ایک کمرہ سر چھپانے کے لیے بنا سکیں۔

لاکھوں میں تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے چھوٹے کاروبار تھے جیسے کہ  کریانہ، الیکٹرک یا درزی کی چھوٹی دکان، کوئی سبزی یا پھل کا ٹھیلا، معمولی رقبے کی زرعی زمین، مرغی اور انڈوں کا گھریلو فارم یا پھر دو چار مویشی جن کا دودھ فروخت ہو سکے۔

یہ چھوٹے کاروبار جو ان کی کُل کائنات ہوا کرتے اب نہیں ہیں۔ ایسے افراد اب بھی اس تگ و دو میں ہیں اب آگے کیا کرنا ہے۔

عین ممکن ہے کہ ایسے چھوٹے کاروباری لوگ پھر کچھ نہ کچھ کر لیں لیکن اصل کم بختی تو ان روزانہ کے اجرتی ملازمین کی ہے جن کی روز کی دیہاڑی ایسے ہی چھوٹے موٹے کاروبار اور سروسز سے منسلک ہوتی تھی۔

سوات  کا نوجوان سجاد ایسا ہی دیہاڑی دار ہے جس کا لاغر جسم بتا رہا ہے کہ وہ سخت محنت مزدوری سہار نہیں سکتا، اتنی عمر اور تجربہ نہیں کہ راج مستری لگ سکے۔

تعلیم سے محروم ہے اس لیے یوں بھی اندھیرا ہی اندھیرا ہے، باقی بچا دریائے سوات کے کنارے ایک چائے کا ہوٹل جہاں وہ  بیرا لگا ہوا تھا سو وہ اگست کے آخری ہفتے میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

سجاد سے بات ہوئی تو اس کا چہرہ مسکراہٹ سے عاری تھا، عمر یہی کوئی 20 سے 22 برس ہوگی مگر چہرے کی بے رونقی سے عیاں تھا کہ شب روز کیسے کٹ رہے ہیں۔

کہنے لگا کہ چائے کا وہ ہوٹل اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہتے دیکھا ہے۔ اسے تب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہوٹل ختم ہو جائے گا۔ آج بھی کبھی رات کو سوتا ہے تو بے دھیانی میں خیال آتا ہے کہ منہ اندھیرے ہوٹل نکلنا ہے۔

جس دریائے سوات کے کنارے سجاد جیسوں کی روزی روٹی لگی تھی وہاں اب سیلاب کے ساتھ آنے والی چٹانیں اور پتھر بکھرے پڑے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں کے اسٹرکچر تو کھڑے ہیں اندر سے یہ بھی آفت زدہ ہیں۔ رہ گئیں چھوٹی دکانیں اور ہوٹلز تو ان کا نام و نشان نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سجاد جیسے لاکھوں نوجوان ہیں جنہوں نے اپنا مستقبل سیلاب میں بہتے دیکھا ہے۔ اب سجاد روز مزدوری کی تلاش میں نکلتا ہے۔ قسمت ساتھ دے تو زیادہ تر یہی کام ملتا ہے کہ وہ کاروباری لوگ جو دوبارہ اپنا بزنس بحال کرنے میں لگے ہیں وہ سجاد کو بجری سیمنٹ اٹھانے کا کام دے دیتے ہیں۔ بعض بے روزگار مزدوروں کو یہ کام بھی نہیں مل رہے۔

پانی کا سیلاب تو ایک دن آیا اور سب بہا کر لے گیا لیکن اس سیلاب کے بعد روز کیسے کیسے سیلابوں، کیسی کیسی تباہی کو جھیلنا پڑتا ہے متاثرین کے لیے یہ سیلاب پیکج کا حصہ ہے۔

اس سیلاب پیکج میں بے گھری، بے روزگاری اور پھر طویل عرصے تک بے بسی شامل ہے۔ یعنی قدرتی آفت آئی ہے پھر جھیلنا تو پڑے گا چاہے روز مریں یا روز جییں۔

اقتدار کے ایوانوں میں اس وقت سوائے سیلاب بحالی کے کوئی دوسری بات ہونی نہیں چاہیے۔ سیاستدانوں میں ذرہ برابر احساس باقی ہو تو انہیں اس وقت قوم کی ری بلڈنگ کے عمل میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔

بیوروکریسی کو ملک کے شہروں اور دیہاتوں کی کنجی اس لیے نہیں ملتی کہ بابو جی سرکاری گاڑی میں دندناتے پھریں، کچھ انہیں بھی کارکردگی دکھانی ہو گی۔

وزراتِ ماحولیات عالمی طور پر کافی سنجیدگی سے سیلاب کا مسئلہ اٹھا رہی ہے لیکن مقامی طور پر بھی ماحولیات کا موضوع ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

اگست ستمبر والے تاریخی سیلاب کے بعد ہماری ترجیحات کا رخ ماحولیاتی مسائل، قدرتی آفات اور ایمرجنسی سروسز کی بہتری کی طرف ہونا چاہیے تھا اب بھی وقت ہے اب بھی کُل توانائی ان ہی مسائل سے نمٹنے میں صرف ہونی چاہیے۔

یہ ہونا چاہیے، وہ ہونا چاہیے، ہونے کو تو بہت کچھ ہونا چاہیے لیکن فی الحال یہ ہو رہا ہے کہ شہری انتظامیہ بے یقنی کا شکار ہے، سیاسی کھینچا تانی کے باعث بیورکریسی میں بھی پالیسیوں کا تسلسل نہیں۔

سیاسی جماعتیں اگلے عام انتخابات کے لیے زمینیں ہموار کرنے میں لگی ہیں، ملک کے سر پہ دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، عمران خان کا انقلاب پھنسا ہوا ہے، نواز شریف کی وطن واپسی معمہ بنی ہوئی ہے اور رہ گئے نئے چیف صاحب تو انہیں چار دن قبل ہی چھڑی ملی ہے، کچھ وقت تو لگے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ