پاکستان کھپے، لہولہان نہ کھپے

سوال 2007 میں بھی یہ تھا اور آج بھی یہی ہے کہ سیاست دانوں کو یہ خطرات کس سے ہوتے ہیں؟ سیاست اور جمہوریت جو ایک خالصتاً عوامی عمل ہے اس میں یہ خونریزی کا ڈر کہاں سے آیا؟

پاکستان تحریک انصاف کے حامی تین نومبر 2022 کو اپنے چیئرمین عمران خان پر حملے کے بعد لاہور کے شوکت خانم ہسپتال کے باہر احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

27 دسمبر 2007 کی شام جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پہ حملے کی خبر پھیلی تو اس بدنصیب ملک کے بے یقین باسی خالی خالی نظروں سے ٹی وی سکرینوں کو تک رہے تھے۔

میں یونیورسٹی سٹودنٹ تھی اور سچ ہے کہ جمہوریت کتنا خون مانگتی ہے، اس بارے میں کچھ خاص آگہی نہیں تھی۔

میں بار بار سکرین کے سامنے بیٹھ کر روتے ہوئے اپنے ابو سے پوچھتی، ’جب بےنظیر کو معلوم تھا کہ انہیں مار دیں گے تو وہ پاکستان کیوں آئیں؟‘

ووٹر شاید ایسی ہی شخصیت کو اپنا رہنما مانتے ہیں جس کی ہمت و بہادری کے سامنے کیوں، کیا، کیسے والے تمام سوال لاجواب ہو جاتے ہیں، جہاں عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ہم انگشت بدنداں سوچتے ہیں کہ واقعی یہ فیصلہ تو کوئی لیڈر ہی کر سکتا ہے۔

عمران خان پہ حملہ پنجاب کے شہر وزیر آباد میں ہوا لیکن یقین ہے کہ سندھ کے گڑھی خدا بخش میں کوئی نوجوان ذہن ایسے ہی سوال اپنے بڑوں سے پوچھ رہا ہو گا۔ کسی سے نہ پوچھے تو سوشل میڈیا پہ جواب ڈھونڈ رہا ہو گا کہ جمہوریت کو اب عمران خان کے خون کی ضرورت کیوں درپیش ہے؟ بےنظیر بھٹو کے قتل کے وقت سارا ملبہ طالبان پہ ڈال دیا گیا، اب کیا ہے؟ اور اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو عمران خان کھڑکی دروازے بند کر کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے؟ جان سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں اور گھر سے محفوظ تو کوئی جگہ نہیں۔

خطرات سے ڈر کر گھر بیٹھنے والا آپشن ہم سیانوں کے پاس ہوتا ہے، ہم حساب لگاتے ہیں کہ فلاں خبر صاحب کی طبیعت پہ گراں گزرے گی، چلو خبر سے زہر نکال دیتے ہیں۔ ہم سیلف سینسرشپ کی ڈھال کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ ہماری کسی ٹویٹ میں بڑے گھر والوں کی شان میں گستاخی کا پہلو نکلے ہم اسے ڈیلیٹ کرنے میں نہیں کتراتے۔ تنقید کریں تو لفاظی کا سہارا لیتے ہیں، تعریف کریں تو پل باندھ سکتے ہیں۔ بہت سے خطرات ہم ٹکراؤ نہیں بھائی بندی کے ذریعے ٹال دیتے ہیں۔

کم بختی تو اصل میں لیڈروں کی ہوتی ہے جن سے لاکھوں کارکنان کو بہادری کی امید ہوتی ہے، اگلا ملاقاتوں کے ذریعے معاملہ رفع دفع کرنے کے موڈ میں ہوتا ہے ادھر پبلک خواہ مخواہ کا ٹیپو سلطان بنانے پہ تلی ہوتی ہے۔ لیڈر کو لیڈر سے گیڈر کا لقب ملنے میں بس اتنا وقت لگتا ہے، جتنا میدان سے بھاگ جانے والے کو پناہ ملنے میں لگتا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اصل سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب خطرہ تھا تو بےنظیر پاکستان واپس کیوں آئیں، یا آج یہ سوال نہیں بنتا کہ جب خطرات کا پہلے سے علم تھا تو عمران خان آزادی مارچ کیوں نکال رہے ہیں؟

سوال 2007 میں بھی یہ تھا اور آج بھی یہی ہے کہ سیاست دانوں کو یہ خطرات کس سے ہوتے ہیں؟ یہ جان لینے کا خوف بھلا کس سے ہوتا ہے؟ سیاست اور جمہوریت جو ایک خالصتاً عوامی عمل ہے اس میں یہ خونریزی کا ڈر کہاں سے آیا؟

اگر سیاست ایسا ہی خونی کاروبار ہے تو پھر اس میں صرف مافیا ہی پنپ سکتا ہے۔ اگر نشانے بازوں ہی سے جمہوریت کنٹرول ہوتی ہے تو پھر ایسی جمہوریت میں بتائیں کون شریف اور سیدھا سچا پاکستانی شامل ہو سکتا ہے۔

عام پاکستانی بیچارے کی تو بس اتنی ہی استطاعت ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتجاج کر لے اور آنسو گیس سہہ لے۔ خودکش حملے، شاٹ گن، کلاشنکوف، گولیوں کی گھن گرج سننے کی دیر ہے عام شہری تو کانپتی ٹانگوں اور رعشے سے جھنجھناتے ہاتھوں سے اپنی چپلیں اٹھاتا ہے اور سیدھا گھر بھاگتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ کم از کم جمہوریت اور سیاست کے موجودہ ڈیزائن میں نہتے شہریوں کا کوئی سکوپ نہیں۔

ہمارا شعور ہمیں اسی سوال پہ پھر لے آتا ہے کہ اگر سیاست اسلحے کے زور کا کھیل ہے تو یہ اسلحہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ سیاست اگر خوف کا کاروبار ہے تو پاکستان میں سب سے خوفناک کون ہے؟ سیاست کی سمت اگر بلیک میلنگ طے کرتی ہے تو یہ بلیک میل کرنے کا مواد کس کی پہنچ میں ہوتا ہے؟ کون ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کس سیاست دان سے کب بات کرنی ہے، کب دھمکانا ہے، کب سچ مچ ڈرانا ہے اور کب فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دینی ہے؟

عمران خان اسلام آباد پہنچ کر کیا کچھ حاصل کر پاتے یہ تو عوام، وقت اور حالات طے کر ہی لیتے مگر معاملہ گولی تک پہنچانے والے کون ہیں؟

لاکھوں پاکستانی عمران خان کے بیانیے اور انداز سیاست سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ خان کے مارچ میں نہیں جاتے، عوام مسترد کر دیتے تو تحریک خود بخود دم توڑ دیتی۔

خان نے مارچ میں انٹرٹینمنٹ کا وعدہ کیا تھا، خون خرابے کا نہیں، پھر وہ کون ہے جو سیاست میں خون خرابے کا انتظام ہر دور میں ہر حد تک ممکن بناتے ہیں؟

تمام سیاست دان کیوں نہیں مل بیٹھ کر بات کرتے کہ پاکستان کھپے، مگر لہولہان نہ کھپے۔ ہمارے سینے بدلتے رہتے ہیں مگر گولی ہمیشہ سے ایک ہی کیوں ہوتی ہے، یہ جواب ڈھونڈیں کہ اس قوت کا کیسے مقابلہ کرنا ہے، جو بیلٹ کی سیاست کو بلٹ سے رنگین کر دیتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ