کاش پاکستان کو بھی احمادو تھیام جیسا لیڈر مل جائے

احمادو تھیام مالی کے ایک آئیڈیلسٹ نوجوان سیاست دان ہیں، جب ایک کانفرنس میں انہیں سننا شروع کیا تو قرآن کریم کے حوالہ جات اور افریقی سیاست سمیت ہر اس معاملے کو انہوں نے موضوع سخن بنایا، جس پہ بات کرنے کے لیے کئی کاغذ کالے کرنا پڑیں۔

احمادو تھیام ایک آئیڈیلسٹ نوجوان سیاست دان ہیں مگر افریقہ کے مستقبل کو ماضی کے حوالوں سے دیکھتے ہیں (عفت رضوی)

 

مغربی افریقہ میں مالی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ افریقی ملک کا نام لے دیا تو بہت سے پڑھنے والے تو یہیں رک جائیں گے کہ آگے پڑھیں کہ نہ پڑھیں کیونکہ اس خطے میں ہمارے لوگوں کی سیاسی یا جغرافیائی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔

میرا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہے کہ آپ کو پڑھنا چاہیے تاکہ لاعلمی کا وہ تجربہ آپ کو نہ ہو جو مجھے ہوا ہے۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبیل پیس سینٹر  بین الاقوامی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے عالمی مستقبل کے حوالے سے ایک کانفرنس ہوئی۔ یہیں میری ملاقات افریقی ملک مالی کے نوجوان سیاست دان اور صدارتی امیدوار احمادو تھیام سے ہوئی۔ احمادو تھیام مالی کی پارلیمنٹ کے کم عمر ترین ممبر اور سپیکر اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔

احمادو تھیام کو جب سننا شروع کیا تو قرآن کریم کے حوالہ جات، افریقی اور مغربی تعلقات کی تاریخ، افریقہ میں مسلمانوں کا ماضی اور حال، افریقی سیاست غرض انہوں نے ہر اس معاملے کو موضوع سخن بنایا، جس پہ بات کرنے کے لیے کئی کاغذ کالے کرنا پڑیں۔

مالی افریقہ میں ہے، بالکل ہوگا مگر کہاں ہے یہ جاننے کے لیے میں نے فوراً گوگل سرچ کا سہارا لیا۔ کچھ خجالت بھی ہوئی کہ سیاست اور صحافت کی طالب علم ہوں مگر ایک اچھے خاصے ملک کا نہیں پتہ۔ یہ مشکل شاید احمادو تھیام بھانپ گئے تھے کہنے لگے کہ اگر سمجھ نہ آئے کہ مالی بھی کیا کوئی ملک ہے تو آپ نے ٹمبکٹو کا نام تو سنا ہوگا وہ مالی میں ہے۔

ٹمبکٹو کا نام واقعی سنا سنا سا لگا۔ احمادو تھیام کہنے لگے: ’میرا ایک دوست پہلی بار امریکہ گیا، اس کے پاسپورٹ پہ جائے پیدائش ٹمبکٹو لکھی تھی، امریکی امیگریشن آفیسر کو  یقین نہیں آیا تو وہ پوچھنے لگا کہ تم ٹمبکٹو میں کیسے پیدا ہوسکتے ہو، اس نام کی تو کوئی جگہ نہیں۔‘

احمادو تھیام ایک آئیڈیلسٹ نوجوان سیاست دان ہیں مگر افریقہ کے مستقبل کو ماضی کے حوالوں سے دیکھتے ہیں اور دنیا خاص طور پر مسلمان ممالک کو بھی جتاتے رہتے ہیں کہ جو زمین سونا اگلتی تھی وہ افریقہ کی زمین تھی۔ 

احمادو تھیام بتانے لگے کہ انہیں جب یہ بتانا ہو کہ مالی ملک کی تاریخ کیا ہے تو وہ سلطنت مالی کے مسلمان بادشاہ منسا موسیٰ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق منسا موسیٰ دنیا کی تاریخ کا سب سے دولت مند بادشاہ تھا۔ اس نے چودہویں صدی میں حج کا سفر کیا اور یہ سفر مغربی دنیا کی گولڈ مارکیٹ کے لیے گیم چینجر بن گیا۔

منسا موسیٰ افریقہ سے کئی ہزار افراد کا قافلہ اور خالص افریقی کان سے نکلا ڈھیروں سونا لے کر مکے کی جانب چلا۔ راستے میں قاہرہ میں کچھ ماہ قیام کیا جہاں افریقی سونے کی اشرفیاں بطور انعام و تحائف بانٹیں، اس سفر میں اتنا سونا تقسیم ہوا کہ مغربی ریاستوں میں سونے کے دام گر گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب دنیا کو اندازہ ہوا کہ افریقہ میں سونے کے ذخائر ہیں۔ اس زمانے کے نقشوں سے پتا چلتا ہے کہ مغرب نے ٹمبکٹو کو گولڈ کے ذخائر کے لیے مارک کر رکھا تھا۔

احمادو تھیام شکوہ کرنے لگے کہ بین الاقوامی کمپنیوں اور مغرب نے افریقہ کو قدرتی وسائل کھینچنے کے لیے استعمال کیا جبکہ مسلمان ممالک نے ہم سے تعلق امداد دینے کی حد تک رکھا، حالانکہ ہماری زمین صرف سونے اور قیمتی دھاتوں کے ذخائر ہی نہیں رکھتی ہم کچھ صدی قبل تک علم و ہنر کا مرکز تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمادو تھیام پھر ٹمبکٹو کا ذکر لے آئے۔ اب کی بار انہوں نے بتایا کہ مالی میں پندرہویں صدی میں بننے والی یونیورسٹی میں پڑھنے دنیا بھر سے طالب علم آتے تھے۔ آج بھی مالی کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ہاتھ سے لکھی وہ سکالرلی کتابیں موجود ہیں جن میں ادویات، علمِ بدن، تعمیرات اور علم فلکیات سمیت لگ بھگ سائنس کی ہر برانچ کا مواد مل جائے گا۔ یہ قدیمی نسخے اب بھی موجود ہیں اور یہ سات سو سال قبل کے افریقہ کی تاریخ ہے۔

مگر افریقہ اب کہاں کھڑا ہے اور افریقہ کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ اس پہ احمادو تھیام نے کہا کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی بہترین چاکلیٹ سوئٹزرلینڈ میں بنتی ہے مگر اس چاکلیٹ کا بنیادی جزو کوکو افریقہ میں پیدا ہوتا ہے، جیسے چائنا میڈ موبائل فون دنیا خرید رہی ہے لیکن ان کو بنانے میں استعمال دھاتیں افریقہ سے نکالی جارہی ہیں۔ افریقہ بین الاقوامی انڈسٹری کو بنیادی قدرتی وسائل دینے کا مرکز ہے، مگر خود افریقیوں کو اس کا معاشی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

احمادو  تھیام نے سوال کیا کہ کیا امیر مسلمان ممالک جو ہمیں امداد دیتے رہتے ہیں وہ ہمیں امداد کی بجائے ہمارے یہاں انڈسٹری نہیں لگا سکتے۔ کہنے لگے جس حساب سے یورپ کی آبادی کی عمر بڑھ رہی ہے اور افزائش نسل گھٹ رہی ہے اور جس حساب سے افریقی ممالک کی آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے، اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اگلے 50 برسوں میں دنیا کی آبادی میں ہر تیسرا انسان افریقی ہوگا۔

وقت ہے کہ اب مسلمان دنیا کو سوچنا ہوگا کہ مسلمانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ جو کہ افریقی مسلمانوں پہ مشتمل ہے اسے کیسے متحرک کرنا ہے۔ بڑے مسلمان ممالک اب تک جس افریقہ کو نظر انداز کرتے آئے ہیں، اس افریقہ سے بحیثیت امہ کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمیں طاقتور ہوکر دنیا کا مقابلہ نہیں کرنا بلکہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔

احمادو تھیام نے مسلمان ممالک کی سیاست کے حوالے سے اور بھی کئی باتیں کیں لیکن افریقہ بالخصوص مالی کی خوشحالی کے لیے دیئے جانے والے ہر مشورے، ہر سوال اور ہر تنقید کو وہ مسلسل اپنی ڈائری میں لکھتے جاتے۔ میں نے اس ملاقات کا آخری جملہ کہا کہ کاش پاکستان کو بھی احمادو تھیام جیسا نوجوان لیڈر مل جائے، تو انتہائی سنجیدہ مزاج احمادو کا پہلا قہقہہ بلند ہوا۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ