دیہات سے اٹھ کر کابل آنے والے طالبان کی زندگی کیسے بدلی؟

افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے طالبان دیہی علاقوں سے بڑے شہروں میں منتقل ہوئے۔ ان میں سے اکثریت زندگی میں پہلی مرتبہ کسی بڑے شہر اور اس کی ہنگامہ خیز زندگی کا سامنا کر رہی ہے۔

طالبان 21 اکتوبر، 2022 کو کابل میں روایتی کشتی کا مقابلہ دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے بہت سے جنگجو دیہات سے نکل کر افغانستان کے بڑے شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ان میں سے اکثریت زندگی میں پہلی مرتبہ کسی بڑے شہر اور اس کی ہنگامہ خیز زندگی کا سامنا کر رہی تھی۔ 

مہمان مصنف سباوون صمیم نے طالبان کے ایسے ہی پانچ ارکان کا مفصل انٹرویو کیا جو دیہی علاقوں کو چھوڑ کر اپنے خاندان سے دور کابل میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں کابل اور یہاں کے لوگ کیسے لگے؟ باقاعدہ ملازمت، دفتری اوقات، ٹریفک اور لاکھوں باشندوں پر مشتمل شہری زندگی کا تجربہ ان کے لیے کیسا رہا؟ یہ سب جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کے پاپیادہ فوجیوں کی ایک بڑی تعداد دارالحکومت کابل کی طرف دوڑ پڑی۔

دیہی علاقوں میں پیدا ہونے اور اپنی جوانی میدان جنگ میں گزارنے والے بہت سے لوگوں کے لیے دارالحکومت دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔

یہاں تک کہ ان کے باپ دادا کے لیے بھی 2021 کا افغان دارالحکومت ایک نئی دنیا تھی جہاں خانہ جنگی کے باعث بننے والے کھنڈرات دوبارہ بلند و بالا عمارتوں کا روپ دھار چکے تھے اور آبادی کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ کابل آنے والوں میں سے بعض افراد پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔

اس نئی شہری زندگی، کابل اور کابل کے باشندوں کے بارے میں ان کے تاثرات جاننے کے لیے ہم نے تحریک طالبان کے پانچ اراکین سے مفصل بات چیت کی۔

ان کی عمریں 24 سے 32 سال کے درمیان ہیں اور انہوں نے چھ سے 11 سال تک تحریک طالبان میں مختلف حیثیتوں سے کام کیا۔ ان میں سے ایک کمانڈر، ایک ڈپٹی کمانڈر، ایک سنائپر اور دو جنگجو ہیں۔

مذکورہ پانچوں افراد نئی حکومت میں ملازم اور اپنے خاندانوں کے بغیر کابل میں رہائش پذیر ہیں جو محض چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقوں کو لوٹتے ہیں۔

  •  عمر منصور

صوبہ پکتیکا کے یحیی خیل ضلع سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ عمر منصور شادی شدہ اور پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ وہ طالبان کے ایک گروہ کے سربراہ ہیں۔

میری پیدائش شمالی وزیرستان کی ہے لیکن بچپن یحییٰ خیل میں گزرا جہاں میں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کی مسجد میں حاصل کی اور پھر قریبی ضلع میں طالبان کے قائم کردہ ایک مدرسے میں چلا گیا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت میری عمر محض 11 برس تھی۔

اس حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اندھا دھند بمباری کے بعد میرا یقین پختہ ہو گیا کہ ان بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جہاد فرض ہے۔ میں نے مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑی اور اگلے 14 سال تک جہاد میں مگن رہا۔

 میں کچھ عرصے بعد مولوی صاحب (طالبان اپنے بزرگ کمانڈروں کو تعظیماً مولوی صاحب کہتے ہیں) کے گروہ میں نائب بنا اور پھر کمانڈر بن گیا۔ الحمد للّہ ہمیں فتح نصیب ہوئی جس کے بعد مولوی صاحب نے ایک وزیر سے کہا اور مجھے ایک دفتر کے سربراہ کے طور پر گریڈ 3 کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔

میں اپنے خاندان کو کابل نہیں لایا کیونکہ مکانات کا کرایہ بہت زیادہ ہے اور ہماری تنخواہ محض 15 ہزار افغانی (تقریباً 180 امریکی ڈالر) ہے۔ انشاء اللّٰہ جیسے ہی تنخواہ بڑھی میں اپنے خاندان کو بھی یہاں لے آؤں گا۔

میں اس سے پہلے کبھی کابل نہیں آیا تھا۔ ہم نے ریڈیو اور وہاں جانے والے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ اسے امریکیوں اور کرزئی نے بہت خوبصورتی سے تعمیر کیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ اتنا خوبصورت نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے تھا۔

امریکیوں نے بے تحاشا پیسہ لٹایا لیکن شہر کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی بجائے اس کا زیادہ تر حصہ (مارشل قاسم) فہیم (مرحوم نائب صدر اور شمالی عسکری اتحاد کے رہنما) کی جیبوں میں چلا گیا۔ اس کے باوجود یہ افغانستان کا سب سے خوبصورت شہر ہے۔

مجھے کابل میں روز بروز بڑھتا ہوا ٹریفک کا رش اور اس کی وجہ سے نقل و حرکت میں رکاوٹ بالکل پسند نہیں۔ گذشتہ برس تک یہ قابل برداشت تھا لیکن پچھلے چند مہینوں میں یہ بہت بڑھ گیا ہے۔

لوگ اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ طالبان کی وجہ سے غربت پیدا ہوئی لیکن ٹریفک، بازاروں اور ریستورانوں میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ کہاں ہے وہ غربت۔

 پہلے ہمیں کافی حد تک آزادی تھی کہ کہاں جانا ہے، کہاں رہنا ہے اور آیا جنگ میں حصہ لینا ہے کہ نہیں۔ جب سے ہم نے فتح حاصل کی تب سے یہ آزادی چھن گئی جو مجھے پسند نہیں۔

اب ہمیں صبح آٹھ بجے سے پہلے دفتر جانا اور شام 4 بجے تک وہاں رہنا پڑتا ہے۔ اگر آپ نہیں جاتے تو غیر حاضری کی وجہ سے آپ کی تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے۔ بہرحال ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں لیکن ابتدائی دو، تین مہینے یہ بہت مشکل لگتا تھا۔

مجھے کابل میں جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ ہے اس کی نسبتاً صاف ستھری اور سہولیات سے مالامال زندگی، جدید عمارتیں، سڑکیں، بجلی، انٹرنیٹ کنکشن اور بہت سی دوسری چیزیں۔

آپ کو آدھی رات کو بھی ٹیکسیاں مل سکتی ہیں، دروازے پر ہسپتال ہیں، شہر کے کونے کونے پر تعلیمی مراکز اور مدرسے میسر ہیں۔ کابل کی دوسری مثبت خصوصیت اس کا نسلی تنوع ہے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ازبک، پشتون اور تاجک ایک عمارت میں رہتے اور ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔

کچھ لوگ کابل کا بہت منفی تاثر رکھتے ہیں۔ میں نے یہاں ہر طرح کے لوگ دیکھے، اچھے اور پکے مسلمان بھی اور  نہایت برے مسلمان بھی۔

دیہات کے برعکس یہاں لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کے بجائے محض اللّٰہ کی رضا کے لیے مسجد جاتے اور خیرات کرتے ہیں۔ کیوں کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اس لیے انہیں ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اسی طرح یہاں برے اور شریر لوگ بھی بہت ہیں۔ وہ اخلاقی طور پر بددیانت اور محض نام کے مسلمان ہیں، وہ گنہگار ہیں۔ میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہاں اچھے لوگ زیادہ ہیں یا برے۔

  • حذیفہ

24 سالہ سنائپر حذیفہ کا تعلق جنوب مشرقی صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت سے ہے۔ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔

میری پرورش زرمت میں ہوئی اور تقریباً 13 سال کی عمر میں میرے والد نے مجھے قریبی مدرسے میں داخل کروا دیا۔ پانچ سال بعد پڑھائی ادھوری چھوڑ کر میں نے طالبان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جس پر مجھے ایک دوست نے راضی کیا تھا۔

میرے گھر والوں نے پہلے مجھے براہ راست اور پھر ہمارے کمانڈر کے ذریعے مجھے واپس بلانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا اگر میں گھر آیا تو وہ میری منگنی کروا دیں گے۔ لیکن ایک بار جب کوئی لشکر میں وقت گزار لے تو یہاں کا دوستانہ اور پیار بھرا ماحول چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہاں محبت، خلوص اور سب سے بڑھ کر شہادت کی پیاس تھی۔ یہاں دنیاوی مشغلے زندگی کے معمول میں کہیں دور دور تک نہ تھے۔ ہم جہاد کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔

میں ایک سنائپر تھا اور اپنا زیادہ تر وقت پکتیا میں گزارتا تھا۔ جہاد کے زمانے میں زندگی بہت سادہ تھی۔ ہمیں محض حملوں کی منصوبہ بندی اور دشمن کو پسپا کرنے کے بارے میں سوچنا ہوتا تھا۔

لوگ ہم سے زیادہ توقعات رکھتے تھے نہ ان کی ذمہ داری ہم پر تھی جب کہ اب اگر کوئی بھوکا ہے تو وہ اس کا براہ راست ذمہ دار ہمیں سمجھتا ہے۔

فتح کے بعد ہم کابل چلے گئے اور مجھے پولیس میں سرکاری ملازمت دے دی گئی جب کہ دوسرے دوستوں کو وزارت داخلہ میں بھیج دیا گیا۔

اسی موقع پر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کابل دیکھا۔ ابتدا میں میرا خیال تھا کہ کابل برے لوگوں سے بھرا ہو گا لیکن سچ پوچھیں تو گذشتہ چند برسوں کے دوران مجھے احساس ہوا کہ میں غلط تھا۔

بلاشبہ اس کے بہت سے منفی پہلو ہیں جیسا کہ قبضہ گیروں کی حمایت، خواتین کا مناسب لباس نہ پہننا، نوجوانوں کا لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا اور اپنے بالوں کو مغربی انداز میں کٹوانا، لیکن یہ مسائل تو آج کل دیہی علاقوں میں موجود بھی ہیں۔

کابل پہنچنے کے بعد ہم اس کی پیچیدگی اور اس کی وسعت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہاں جانا ہے۔

جب ہم اپنے پولیس کے مرکز پہنچے تو کمپاؤنڈ، اسلحہ اور حفاظتی سامان کو دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ ایک بھی گولی چلائے بغیر یہ سب کچھ کیسے چھوڑ کر چلے گئے۔ (سابقہ) فوج اور پولیس اتنی بزدل تھی ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا۔

مجھے کابل کے بارے میں ایک بات پسند نہیں کہ افغانستان کے تمام 34 صوبوں سے لوگ یہاں منتقل ہوئے جن میں افغانستان بھر سے آنے والے جرائم پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے اور اس نے اس شہر کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔

ہمیں جرائم بالخصوص ڈکیتی کے خاتمے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسرا مجھے لوگوں کی وحشیانہ روش بالکل پسند نہیں جس کا زیادہ نشانہ خواتین بنتی ہیں اور درجنوں کی تعداد میں روزانہ پولیس کو اپنی شکایات درج کراتی ہیں۔

وہ مختلف قسم کی بربریت کا شکار ہوتی ہیں۔ پہلے دنوں میں جب خواتین ہم سے رابطہ کرتی تھیں تو مجھ سمیت بہت سے مجاہدین ان سے چھپتے تھے کیونکہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اجنبی عورتوں سے بات نہیں کی۔

اس کے بعد سٹیشن کے سربراہ نے ہمیں ہدایت کی کہ شریعت ہمیں ان سے بات کرنے کی اجازت دیتی ہے کیونکہ اب ہم ہی حکام اور واحد ذریعہ ہیں جو ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

مجھے کابل کے بارے میں جو چیز پسند نہیں وہ اس کا گھٹن زدہ ماحول ہے۔ لوگ ایک ساتھ رہتے لیکن آپس میں بات چیت نہیں کرتے ہیں۔ یہ جزوی طور پر اس لیے برا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ گاؤں کے برعکس لوگ آپ کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے ہیں اور آپ کی پیٹھ کے پیچھے آپ کے بارے میں باتیں نہیں کرتے۔

ایک اور چیز ہے جسے میں ناپسند کرتا ہوں وہ زندگی کا محدود دائرہ ہے۔ ایک ہی جگہ، ایک ہی ڈیسک اور ہفتے کے سات دن کمپیوٹر کے پیچھے، بس یہی روٹین ہے۔ زندگی بہت تھکا دینے والی ہو گئی ہے، آپ ہر روز ایک جیسی چیزیں کرتے ہیں۔

میں نے تین لڑکوں سے دوستی کی ہے جو ہمارے صوبے سے ہیں لیکن گذشتہ 15 سال سے زائد مدت سے یہیں رہائش پذیر ہیں۔ ہم کبھی کبھی کابل کے چڑیا گھر اور ادھر ادھر گھومنے جاتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو جب بھی میں ان کے ساتھ جاتا ہوں وہ مجھ پر گاڑی میں موسیقی بجانے اور سننے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ پہلے تو میں مزاحمت کر رہا تھا لیکن اب میں نے مشروط طور پر ہار مان لی ہے کہ وہ سکیورٹی چوکیوں سے گزرتے وقت اسے بند کر دیا کریں کیونکہ بہت سے دوسرے طالبان اسے پسند نہیں کرتے اور ایک طالب کے لیے یہ بہت بری بات ہے کہ وہ موسیقی سنتے ہوئے پکڑا جائے۔

اگرچہ میرے نئے دوست اچھے گھرانوں سے ہیں اور اچھے لڑکے ہیں لیکن کابل میں نوجوانوں کے بہت سے برے حلقے ہیں جو سگریٹ پیتے ہیں، منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور برے کام کرتے ہیں۔

ہماری فطرت اور اقدار مختلف ہیں، اور اسی لیے ہمارے اکثر دوست کابل میں زیادہ دوستیاں نہیں بناتے۔ اس کے باوجود کچھ طالبان اب ایسے نوجوانوں سے دوستی کر چکے ہیں اور بہت سے برے کام کرنے پر مائل ہو گئے ہیں جیسے کہ حقہ کیفے میں جا کر تمباکو نوشی کرنا۔

  • کامران

27 سالہ ڈپٹی گروپ کمانڈر کامران کا تعلق صوبہ وردک کے ضلع سید آباد سے ہے۔ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔

میں نے سید آباد کے ایک سرکاری سکول سے گریجویشن کی اور پھر محض 19 سال کی عمر میں جہاد کی خاطر تعلیم ترک کر دی۔ یہ طالبان کے ساتھ میرا آٹھواں سال ہے۔

سید آباد کی لڑائیوں کی شدت پورے افغانستان میں مشہور ہے۔ میں بھی ان میں شریک رہا۔ یہاں بہت لاشیں گریں۔

جہاد کے دوران ڈرون کا خوف سائے کی طرح ہمارا پیچھا کرتا رہا۔  اگرچہ گزشتہ دو یا تین برسوں میں جنگ کے حالات بدل گئے لیکن ڈرون کے خطرے نے ہماری نقل و حرکت کو اب بھی متاثر کر رکھا ہے۔

درحقیقت بمباری کو چھوڑ کر آمنے سامنے کی لڑائیوں میں کبھی بھی ہم نے امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کو اپنے اوپر برتری حاصل نہیں کرنے دی۔

الحمد للّٰہ حالات اب بالکل بدل چکے ہیں۔ ہم جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔

میں فتح سے پہلے دو بار کابل دیکھ چکا تھا۔ تب کابل زیر قبضہ تھا اور دونوں بار مجھے خوف تھا کہ گرفتار نہ کر لیا جاؤں۔ ایک بار مجھ سے کافی پوچھ گچھ ہوئی لیکن میں انہیں دھوکہ دینے میں کامیاب رہا۔

مجھے وزارت داخلہ میں ملازمت ملی ہے۔ میں اپنی ملازمت سے خوش ہوں لیکن اکثر جہاد کا وقت یاد کرتا ہوں۔ تب ہماری زندگی کا ہر لمحہ عقیدت سے بھرا تھا۔

فتح کے بعد ہمارے بہت سے دوستوں نے جہاد کو چھوڑ دیا۔ بہت سے دوسرے لوگوں نے شہداء کے خون سے غداری کی۔ آج کل لوگ اس دنیاوی زندگی میں زیادہ سے زیادہ دولت اور شہرت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

پہلے ہم سب کچھ اللّٰہ کی رضا کے لیے کرتے تھے لیکن اب اس کے برعکس ہے۔ بہت سے لوگوں کی پہلی ترجیح اپنی جیبیں بھرنا اور شہرت حاصل کرنا ہے۔

 میں فتح کے بعد خوش اس لیے نہیں کیوں کہ ہم فوراً اپنا ماضی بھول گئے۔ تب ہمارے پاس صرف ایک موٹر سائیکل، ایک واکی ٹاکی اور ایک مسجد یا مدرسہ ہوتا تھا۔

اب جب کوئی سرکاری ملازمت کے لیے نامزد ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے یہ پوچھتا ہے کہ اس عہدے کے ساتھ گاڑی ملے گی یا نہیں۔ ہم لوگوں کے درمیان رہتے تھے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ اب اس سادہ زندگی کو چھوڑ کر اپنے دفاتر اور محلوں میں خود کو پنجرے میں بند کر چکے ہیں۔

میں اہل کابل کے ساتھ زیادہ بات چیت نہیں کرتا کیونکہ یہاں وزارت میرے ساتھی طالبان سے بھری ہوئی ہے۔

ویسے کبھی کبھی میں سابق دور حکومت کے ملازمین کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں جو آج بھی اپنی ملازمت کر رہے ہیں۔

وہ اپنے آپ کو بہت اچھے لوگ اور طالبان حکومت کے لیے مخلص ظاہر کرتے ہیں لیکن میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ حقیقت میں وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔

میں قطعی طور پر تو نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے لیکن میں نے گذشتہ برس کچھ ممکنہ وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔

 سب سے پہلے کہ یہ ملازمین وزارت داخلہ میں کام کرتے ہوئے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے ذریعے غیر قانونی دولت کما رہے تھے۔

دوسرا امریکیوں نے ان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی اور وہ اس قدر مغرب زدہ ہو گئے کہ اب ہماری اصلی افغان ثقافت اور اسلام سے نفرت کرتے ہیں۔ جب طالبان حکومت آئی تو ان کا غیر قانونی کاروبار اور بدعنوانی بالکل ختم ہو گئی اور ان کے پاس سوائے تنخواہ کے کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔

اب وہ لاکھوں روپے نہیں کما رہے۔ اب آپ خود ہی مجھے بتائیں کہ وہ ہم سے نفرت نہ کریں تو کیا کریں؟

مجھے اپنے مجاہدین کی بہت فکر ہے۔ اصل امتحان اور چیلنج جہاد کے دوران نہیں تھا بلکہ اب ہے۔ ہماری آزمائش گاڑیوں، عہدوں، دولت اور عورتوں سے ہوتا ہے۔

ہمارے بہت سے مجاہدین خدا نخواستہ اس زہریلے جال میں پھنس چکے ہیں جو بظاہر بہت پرکشش نظر آتا ہے۔ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کو نظر انداز کرنے لگے جنہوں نے فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

میں نے کابل میں (مستقل طور پر خاندان کے ساتھ) رہنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ بے شک یہ باہر سے خوبصورت ہے لیکن اس میں سکون بہت کم ہے۔

گاؤں میں لوگ اچھے برے وقت، زندگی اور موت میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ آپ کی ایک برادری ہوتی ہے۔ یہاں تو لوگوں کے پاس بات کا وقت نہیں۔ لوگ دنیاوی زندگی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر ایک دن وہ کام پر نہیں گئے تو وہ غربت سے مر جائیں گے۔

  •  عبدالنافع

25 سالہ جنگجو عبدالنفی صوبہ لوگر کے ضلع برکی برک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔

میں برکی برک میں پلا بڑھا اور چھٹی جماعت تک سکول کی تعلیم حاصل کی۔ پھر 12ویں جماعت تک ایک مدرسے میں پڑھتا رہا اور وہاں سے تقریباً سات سال قبل طالبان میں شامل ہوا۔

 جہاد ایک مقدس راستہ تھا جس نے ہمیں حقیقی خوشی بخشی۔ جہاد کے دوران کوئی شخص کمانڈر اور مجھ جیسے پیادہ سپاہی میں فرق نہیں جان سکتا تھا۔ ہم اکٹھے بیٹھتے اور بغیر تکلف ہمدردی سے ایک دوسرے کا احوال بانٹتے تھے۔

تاہم فتح کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ میں خود ایک مجاہد ہوں لیکن ایک معمولی سی عہدے والے ڈائریکٹر کو ملنے کے لیے مجھے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فتح کے دوسرے ہفتے میں کابل پہنچا جو اس شہر کو دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔ یہ ایک بہت بڑا شہر تھا جس نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا کہ ہم اپنا راستہ کیسے تلاش کریں گے۔ اب میں شاید کابل کی گلیوں کو بہت سے کابلیوں سے بہتر جانتا ہوں۔ میں مہینے میں ایک بار یا کبھی دو بار گھر جاتا ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں مولوی صاحب کے ساتھ یہاں آیا جو بہت مہربان ہیں۔ مجھے گریڈ 4 میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا گیا اور اس دوران میں نے ان کے گارڈ کے طور پر اپنی سابقہ ملازمت بھی جاری رکھی۔ میں ان کے ساتھ ان کے گھر میں رہتا ہوں۔ یہ ایک بہت بڑا گھر ہے۔

 وہ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ میں اپنے خاندان کو لے آؤں اور ایک منزل پر رہائش رکھ لوں۔ لیکن میں مالی معاملات کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوں۔

ابتدا میں مجھے اپنے کام کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ مولوی صاحب نے مجھے کمپیوٹر کورس اور انگلش کورس کرنے کو کہا۔ میں نے بہت جلدی اپنے کام پر کمانڈ حاصل کر لی۔

لوگ کہتے ہیں کہ طالبان کے آنے سے پڑھے لکھے اور ماہر افراد ملک سے فرار ہو گئے لیکن ہم نے خود سب چیزیں پر مہارت حاصل کر لی۔

میں آپ کو طالبان کے بارے میں ایک حقیقت بتاتا ہوں کہ ہم بہت ہوشیار اور ذہین ہیں، ہم بہت جلد چیزیں سیکھ لیتے ہیں۔

ہماری وزارت میں میرے لیے بہت کم کام ہے۔ لہذا میں اپنا زیادہ تر وقت ٹوئٹر پر گزارتا ہوں۔ ہم تیز رفتار وائی فائی اور انٹرنیٹ سے منسلک ہیں۔ مجھ سمیت بہت سے مجاہدین انٹرنیٹ بالخصوص ٹوئٹر کے عادی ہیں۔

ابتدائی دنوں میں جب ہم کبھی کبھی وزارت سے نکل کر بازار میں آتے تو عورتیں کے لباس بہت واہیات لگتے تھے۔ شروع میں خواتین کو مجاہدین کا خوف تھا مگر اب انہیں پراوہ تک نہیں ہوتی۔ 

ہمارے بہت سے دوستوں کا کہنا ہے کہ ہمارے آنے اور سابق حکومت کے پولیس اور اہلکاروں کو تبدیل کرنے کے علاوہ کابل میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔

ابتدائی دنوں میں میرے بہت سے ساتھی اور میں خواتین کی وجہ سے بازار جانے سے گریز کرتے رہے تاکہ ان سے آنکھیں چار نہ ہوں۔

ہمیں امید تھی کہ صورتحال جلد بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ یہاں تک کہ کمپیوٹر کورس میں ایک خاتون بھی میری ہم جماعت تھیں۔ ہم ایک ہی کلاس روم میں بیٹھتے۔

اگرچہ میں ان خواتین کو بالکل پسند نہیں کرتا جو مناسب لباس نہیں پہنتیں لیکن ان کی وجہ سے بازار یا اپنی کلاس نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

مجھے کابل ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے ناپسند ہے۔

  • عبدالسلام

صوبہ قندھار کے ضلع ڈنڈ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ عبدالسلام شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ ہیں۔

میں طالبان میں اس وقت شامل ہوا جب 20 سال کا تھا۔ میں نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی نہ سکول میں۔

 جہاد کا وقت ہمارے لیے بہت اچھا تھا۔ مجھے اپنے خاندان کی روزی روٹی کی فکر نہیں تھی کیونکہ میرے دوسرے بھائیوں نے یہ کام اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہے اور میں اسے سرانجام دینے کے لیے گھر سے باہر ہوں۔

محض یہی نہیں بلکہ اس وقت لوگ ہمیں پناہ دینے، ہمارے جوتی، کپڑے اور ہماری موٹر سائیکلوں کے لیے پیٹرول خریدنے کے لیے جی جان سے پوری مدد کرتے تھے۔

تاہم اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ گھر والے آپ کو صاف لفظوں میں بھلے نہ بولیں لیکن وہ چاہتے یہی ہیں کہ اپنی ساری تنخواہ گھر لاؤں۔ اب بچوں کو پالنا میری اپنی ذمہ داری ہے۔ اب لوگ مدد نہیں کرتے۔

اگرچہ اب ہم بغیر کسی خوف کے ہر جگہ جا سکتے ہیں، جنگ ختم ہو چکی ہے اور اسلامی نظام قائم ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم جہاد کے دنوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔

تب ہمیں پیسے بھی ملتے تھے۔ اب اگر ہم شکایت کریں یا کام پر نہ جائیں یا قواعد کی خلاف ورزی کریں تو وہ ہماری تنخواہ سے پیسے کاٹ لیتے ہیں۔ کیوں کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے طالبان تنخواہ کے عوض کام کرنے کے لیے بے شمار لوگوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔

میں اپنا زیادہ تر وقت اپنے ساتھی طالبان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ ہم جمعہ کے دن گھومنے پھرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ ہفتہ سے جمعرات تک ہم دن رات چوکیوں کی نگرانی میں مصروف رہتے ہیں۔ میں قندھار میں نوکری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

انٹرویو دینے والوں کے تجربات سے ان کی نئی زندگی کے بارے میں ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟

جنگ کے خاتمے کے بعد بمباری اور رات کے حملوں کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ کیونکہ وہ جیتنے والے فریق سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان دیہی طالبان جنگجوؤں کو سرکاری نوکریوں اور اہم مراعات سے نوازا گیا۔ اس کے باوجود فتح ان کے لیے بہت سی مشکلات لائی۔

کم و بیش انٹرویو دینے والے سبھی لوگوں نے جہاد کے وقت کو اپنا بہترین وقت قرار دیا جو ایک مذہبی فریضہ اور  اس راستے میں جینا مرنا عبادت اور اعزاز تھا۔

اس کے علاؤہ انہیں اب اپنے کمانڈروں تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کبھی ان کے درمیان ہوا کرتے تھے۔

حکومتی ڈھانچے میں کام کرنے کی تبدیلی نے انہیں سرکاری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن کا انہیں پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔

 انہیں اب اپنی اور اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے پیسے کمانے کی ضرورت ہے جو دوران جنگ نہیں تھی کہ تب ان کے اپنے اخراجات تحریک کے ذریعے پورے کیے جاتے تھے اور انہیں مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔

 انٹرویو دینے والے شہر کے پرکشش مقامات، ترقی اور قدرتی خوبصورتی کی تعریف کرتے رہے۔ ان کے مطابق جو سماجی برائیاں آج کل کابل میں پائی جاتی ہیں وہ افغانستان کے دیہاتوں میں بھی موجود ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے ’افغان انالسٹس نیٹ ورک‘ پر انگریزی میں چھپی تھی

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین