’مسلم ممالک طالبان کو 21 ویں صدی میں منتقلی میں مدد دیں‘

اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کارروائیاں ختم کرنے اور طالبان کو 13ویں سے 21 ویں صدی میں منتقل کرنے میں مدد کریں۔

 اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد 15 دسمبر 2022 کو مونٹریال میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران۔ امینہ محمد نے حال ہی میں ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کیا تھا، جس کا مقصد خواتین پر عائد پابندیوں کا خاتمہ تھا (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران طالبان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے ہر ممکن ’حربہ‘ استعمال کیا۔

نائجیریا کی سابق وزیر رہنے والی امینہ محمد، جو اقوام متحدہ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز مسلم خاتون ہیں، نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کارروائیاں ختم کرنے اور طالبان کو 13 ویں سے 21 ویں صدی میں منتقل کرنے میں مدد کریں۔

امینہ محمد نے کہا کہ گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے وفد کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم سمیت چار طالبان وزرا نے ’ایک ہی مدعے‘ پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان عہدیداروں نے ان چیزوں پر زور دینے کی کوشش کی، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والا ماحول پیدا کرنے جیسے اقدامات کیے، لیکن انہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔

تاہم امینہ محمد نے کہا: ’میں کہوں گی کہ ان کے تحفظ کی تعریف ہمارے نزدیک خواتین پر ظلم کے مترادف ہے۔‘

افغان دارالحکومت کابل اور قندھار میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے بعد رواں ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور بڑے امدادی گروپوں کے سربراہان نے بھی افغانستان کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ افغان خواتین پر قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری گروپوں کے لیے کام کرنے پر پابندی کے اپنے حکم کو واپس لیں۔

بدھ کو کابل سے بات کرتے ہوئے گریفتھس نے کہا کہ اس دورے کا مقصد طالبان کو یہ سمجھانا تھا کہ امدادی کارروائیوں کو شروع کرنا اور ان میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینا انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفد کا پیغام سادہ تھا اور وہ یہ کہ پابندی امدادی ایجنسیوں کے کام کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔

ان کے بقول: ’میں نے ان تمام (افغان طالبان) کو یہ کہتے سنا کہ وہ افغان خواتین کے کام کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کے اس حق کو بھی سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ ان رہنما اصولوں پر کام کر رہے ہیں جن کے ذریعے ان ضروریات کا جواب دیا جائے گا اور یہ ہم مناسب وقت پر ہوتا ہوا دیکھیں گے۔‘

امینہ محمد نے کہا کہ ان کے وفد نے طالبان حکام سے بات چیت میں انسانی اصولوں کے بارے میں زور دیا۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے انہیں یاد دلایا کہ انسانی ہمدردی کے اصولوں میں غیر امتیازی سلوک اہم نکتہ ہے اور یہ کہ وہ خواتین کو کام کی جگہوں سے ہٹا رہے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’طالبان کی طرح ایک سنی مسلمان کے طور پر میں نے افغان وزرا کو بتایا کہ جب لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی اور خواتین کے حقوق چھیننے کی بات ہو تو وہ اسلام کی پیروی نہیں کر رہے اور لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘

امینہ محمد نے بتایا کہ ایک طالبان رہنما نے ان کو بتایا کہ ان کے نزدیک ہم (خواتین) سے براہ راست بات کرنا بھی حرام ہے، اس لیے انہوں نے بات چیت میں ہماری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے یقین دلایا کہ وقت آنے پر خواتین اور لڑکیوں سے چھینے گئے حقوق واپس لوٹا دیے جائیں گے اور جب اقوام متحدہ کے وفد نے اس کے ٹائم لائن کے لیے دباؤ ڈالا تو انہوں نے کہا کہ ایسا ’جلد‘ ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگست 2021 میں 20 سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے دوسری بار اقتدار سنبھالا۔

امینہ محمد نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت کو تسلیم کروانا اور اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اسے برقرار رکھنا چاہیے۔‘

کابل پہنچنے سے پہلے امینہ محمد اور ان کے وفد نے مسلم ممالک کا دورہ کیا جن میں پاکستان، انڈونیشیا، ترکی، خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب شامل ہیں، جہاں ان کے بقول طالبان حکومت کی پابندیوں کے خلاف وسیع حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام مارچ کے وسط میں مسلم دنیا میں خواتین کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی تجویز زیر غور ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہ بہت ضروری ہے کہ مسلم ممالک اکٹھے ہوں۔ ہمیں لڑائی کو خطے تک لے جانا ہے اور ہمیں اس کے بارے میں جرات مندانہ اور حوصلہ مند فیصلوں کی ضرورت ہے کیوں کہ خواتین کے حقوق اہم ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین