طالبان خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندی ختم کریں: عالمی برادری

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے افغانستان میں طالبان کی عبوری انتظامیہ سے خواتین امدادی کارکنوں پر پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

22 دسمبر 2022 کی اس تصویر میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان خواتین طالبان انتظامیہ کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے(اے ایف پی)

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے افغانستان میں طالبان کی عبوری انتظامیہ سے خواتین امدادی کارکنوں پر پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، ناروے، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈز اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’طالبان کے اس خطرناک اور لاپروا فیصلے نے ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی خواتین کارکنان کو کام کرنے سے روک کر ان ہزاروں افغانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو اپنے بقا کے لیے ان کی انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔‘

بدھ کو جاری اس بیان سے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے بھی طالبان کی اس پابندی کی مذمت کی گئی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔‘

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کی تعلیم اور امدادی گروپوں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں کی تمام شعبوں میں مکمل، مساوی اور بامعنی شرکت پر زور دیا۔

منگل کو 15 رکنی کونسل کی جانب سے اتفاق رائے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ہائی سکول اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی ’انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے خواتین اور امدادی تنظیموں پر طالبان کی پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ ناقابل جواز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اور انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔‘

طالبان حکام کی جانب سے خواتین پر ان پابندیوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب نیویارک میں سلامتی کونسل گذشتہ ہفتے افغانستان پر اجلاس میں سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔

افغانستان میں مارچ سے لڑکیوں کے ہائی سکول جانے پر پابندی عائد ہے جبکہ گذشتہ ہفتے افغان وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر تاحکم ثانی پابندی ہوگی۔

بعدازاں 24 دسمبر کو طالبان انتظامیہ نے تمام مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ خواتین ملازمین کو کام پر آنے سے روک دیں۔

کونسل نے کہا کہ امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے والی خواتین کارکنوں پر پابندی سے ملک میں انسانی بنیادوں پر جاری منصوبوں پر اہم اور فوری اثر پڑے گا، جن میں اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔

سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن (یو این اے ایم اے) کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی توقعات سے بھی متصادم ہیں۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کو پابندی کا شکار بنا کر سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا بلکہ حقیقتاً اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل قبول پابندیاں نہ صرف تمام افغان شہریوں کے مصائب میں اضافہ کریں گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ اس سے افغانستان کی سرحدوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔‘

ان کے مطابق ایسی پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

ترک نے خبردار کیا کہ خواتین پر این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی سے کئی خاندانوں کی آمدنی چھن جائے گی اور ساتھ ہی ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے تنظیموں کی صلاحیت کو بھی نمایاں طور پر نقصان پہنچے گا۔

ان کے بقول اس اقدام سے افغانستان میں سردیوں میں عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور یہ وہ وقت ہے جب یہاں انسانی امداد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا