طالبان کی تعلیم پر پابندی: افغان یونیورسٹیوں کی پاکستانی طالبات پریشان

افغانستان میں طالبان کی جانب سے اعلیٰ تعلیم پر عائد پابندی کے باعث ہاسٹلز تک محدود پاکستانی طالبات اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید پریشان ہیں۔

’ہم ہاسٹل میں پیپرز کی تیاری کر رہے تھے کہ کالج وٹس ایپ گروپ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پیغام بھیجا گیا کہ کل سے یونیورسٹی بند ہے اور کوئی بھی آنے کی زحمت نہ کرے کیونکہ طالبان نے پابندی لگائی ہے۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ثنا بیگم کا، جو افغانستان کے ایک میڈیکل کالج میں طب کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ثنا بیگم نے افغانستان جانے سے قبل پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف کالجوں میں داخلے کی کوشش کی، لیکن داخلہ نہ ملنے پر انہوں نے کابل کے میڈیکل کالجوں کا رخ کیا۔

تاہم اب وہ طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں خواتین پر پابندی سے شدید پریشان ہیں۔

وہ گذشتہ چھ ماہ سے کابل کے کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور پہلے سیمسٹر کے امتحان کی تیاری کر رہی تھیں کہ اچانک ہاسٹل ہی میں انہیں پیغام موصول ہوا کہ وہ اب کالج نہیں جا سکتیں۔

کابل سے بذریعہ فون رابطہ کرنے پر ثنا بیگم نے بتایا: ’یہ پیغام دیکھ کر پہلے تو ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ابھی تو امتحان چل رہا ہے تو کیسے یونیوسٹی بند ہوسکتی ہے، تاہم بعد میں پتہ چلا کہ طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میرے والد فوت ہوچکے ہیں اور والدہ بزرگ ہیں جبکہ میری فیس کے سارے اخراجات بہن برداشت کرتی ہے۔ یہاں پر داخلہ لینے کے لیے بہت مشکل سے فیس کا بندوبست کیا تھا لیکن اب فیس بھی گئی اور تعلیم کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ مستقبل میں طالبان تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔‘

ثنا کے مطابق گذشتہ دو تین دنوں سے وہ ہاسٹل تک محدود ہیں اور پاکستان بھی واپس نہیں آ سکتیں کیونکہ ان کے مطابق طالبان کا کچھ پتہ نہیں کہ اگر وہ دوبارہ یونیورسٹیاں کھولنے کا فیصلہ کریں تو پھر آنا مشکل ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا: ’ہم نے تو تعلیم کی غرض سے گھر بار چھوڑ دیا اور دیارغیر میں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے لیکن یہاں پر بھی ہم پر تعلیم کے دروازے بند کیے گئے۔‘

ثنا بیگم کی طرح مریم بی بی بھی طب کی ڈگری حاصل کرنے افغانستان کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لینے گئی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ڈاکٹر بن کر پاکستان واپس آئیں لیکن ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

مریم بی بی نے کابل سے فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی مالی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی لیکن خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں، تو پاکستان میں داخلہ نہ ملنے پر انہوں نے بھی افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اب یہاں تقریباً ایک سال ہو گیا ہے، لیکن وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتیں جب ہمیں یونیورسٹی میں بتایا گیا کہ کل سے آپ یونیورسٹی نہیں آ سکتے۔‘

افغانستان میں قائم طالبان حکومت نے گذشتہ ہفتے وزارت ہائر ایجوکیشن کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر تاحکم ثانی پابندی ہوگی۔

طالبان کی جانب سے اس اعلان پر امریکہ سمیت مختلف عالمی تنظیموں نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی اور طالبان کو کہا کہ وہ جلد از جلد خواتین کی تعلیم پر سے پابندی ہٹائیں۔

تعلیم پر پابندی کی وجوہات؟

خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کیے جانے کے اعلان کے چند روز بعد طالبان کے وزیر برائے ہائر ایجوکیشن شیخ ندا محمد ندیم نے سرکاری ٹی وی ’آر ٹی اے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹیوں میں بچیوں کی تعلیم پر عارضی پابندی چند مسائل کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔

شیخ ندا محمد ندیم کے مطابق: ’پہلا مسئلہ طالبات کے ایک صوبے سے دوسرے میں سفر کر کے وہاں ہاسٹل میں (کسی محرم رشتہ دار کے بغیر) رہائش پذیر ہونا ہے۔‘

ان کے مطابق: دوسرا مسئلہ ’شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیخ ندا محمد ندیم نے بتایا کہ تیسری وجہ ’اکثر یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم کو برقرار رکھنا ہے‘ اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ ’موجودہ نصاب میں کچھ شعبے ایسے ہیں جو خواتین کے لیے نہیں تھے جیسے کہ زراعت اور انجینیئرنگ وغیرہ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کا فیصلہ ’شریعت کے نفاذ‘ کے لیے کیا ہے۔

یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم سے پہلے افغانستان میں پہلے سے طالبان نے مڈل سے اوپر کے سکولوں میں لڑکیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔

اس حوالے سے کابل کے ایک میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ثنا بیگم نے بتایا کہ ’ہم تو شرعی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی یونیورسٹی جاتے ہیں اور وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اب ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک سال ہو گیا ہے کہ ہم یہاں زیر تعلیم ہیں۔ اب اگر افغانستان سے ہم نکل گئے تو ہمارا یہ پورا سال ضائع ہو جائے گا اور پاکستانی کالجوں میں داخلہ بھی نہیں ملے گا کیونکہ اس کے لیے دوبارہ ٹیسٹ دینا پڑے گا۔‘

ثنا بیگم نے عالمی تنظیموں اور دیگر ممالک سے مطالبہ کیا کہ طالبان کی پابندی کے بعد وہ ہزاروں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔

اس حوالے سے پاکستان کے صدر ڈاکر عارف علوی نے آن لائن کلاسز کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں جن طالبات کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے، ان کے لیے پاکستان میں تعلیم سے متعلقہ ادارے آن لائن کلاسز کا بندوبست کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا