اعلیٰ تعلیم پر پابندی: پشاور میں افغان خواتین کیا کہتی ہیں؟

پشاور میں مقیم افغان طالبات اور دیگر خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان کی پالیسیوں کے سبب افغانستان آج بھی وہیں ہے، جہاں 20 سال قبل تھا۔

افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی پابندی کے اعلان کو جہاں ایک جانب اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں پاکستان نے بھی طالبان کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

افغان طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ نے 20 دسمبر کو خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی لگانے کے بعد مغربی ممالک کی درخواستوں کو رد کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا کہ وہ ’مغربی دنیا کی خواہشات پورا کرنے کے پابند نہیں ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پشاور میں مقیم افغان طالبات اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی لگانا جدید دور کے تقاضوں اور معاشرتی اصولوں کے خلاف ہے اور طالبان ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جہاں خاتون مرد کی محکوم ہو۔

قندوز سے تعلق رکھنے والی ایک افغان طالبہ حکیمہ، جو پشاور میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نے افغانستان میں دوران حمل ماؤں اور بچوں کی شرح اموات میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب طالبان خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کریں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ملک میں خواتین ڈاکٹرز نہیں ہوں گی، جس سے خواتین کے لیے بیماریوں کے علاج، تشخیص اور سہولیات میں سخت مشکلات کا سامنا رہے گا۔

حکیمہ کے مطابق: ’اگر خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں صرف مرد ڈاکٹر ہوں گے۔ ایسی صورت میں کیا مستقبل میں طالبان گھر کی خواتین اور ملک کی دوسری خواتین کو مرد طبیبوں کے پاس جانے دیں گے؟‘

انہوں نے مزید بتایا کہ صرف طب ہی نہیں بلکہ کئی دیگر شعبوں میں بھی خواتین کا ہونا لازمی ہے، جس کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرنے والی بعض خواتین کا موقف تھا کہ گذشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے اور ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں 2001 سے افغانستان کی ترقی کا عمل ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور دنیا کے سامنے افغانستان 20 سال پیچھے چلا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں مقیم ایک خاتون افغان پناہ گزین مورسلا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ افغانستان کے حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔’ہم آج بھی وہیں ہیں، جہاں 20 سال قبل تھے۔ افغانستان کے حالات بہت خراب ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ٹوئٹر پر طالبان کے حالیہ اقدام کو ایک ’شرمناک‘ فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ اقدام افغانستان کی خواتین سے تعلیم کا حق چھینتا ہے اور طالبان آئے دن یہ واضح کرتے جارہے ہیں کہ وہ افغان عوام خصوصاً خواتین کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔’

پشاور میں مقیم جلال آباد کی ایک خاتون صفیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں پہلے افغانستان جاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی تھی، تاہم جب سے طالبان حکومت میں آئے ہیں، ان کے اقدامات اور پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے افغانستان میں بسنے کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔

’خواتین افغان معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ان کی آزادی بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی دوسری جنس کی، لیکن طالبان کا ہر عمل خواتین کے خلاف ہی جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کے حقوق مردوں سے زیادہ ہیں، لیکن افغان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔‘

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاست دان بشریٰ گوہر نے بھی طالبان کے اس فیصلے کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘طالبان دہشت گرد افغان خواتین کے دشمن ہیں اور وہ افغانستان کو ایک مرتبہ پھر تاریکیوں میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین