طالبان کی افغان خواتین پر جمز اور حماموں میں جانے پر پابندی

محمد عاکف صادق مہاجر نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’جمز کو خواتین کے لیے بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے ٹرینر مرد تھے اور ان میں سے کچھ مشترکہ جم تھے۔‘

افغان خواتین 27 دسمبر 2017 کو افعانستان کے شوبہ ہرات کے ایک جم میں ورزش کر رہی ہیں (اے ایف پی)

افغان خواتین کے لیے اب جم اور عوامی حمام میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اس بات کی تصدیق طالبان نے اتوار کو کی ہے جبکہ وہ اس سے چند دن قبل پارکوں اور تفریحی میلوں پر بھی پابندی عائد کرچکے ہیں۔

گذشتہ سال طالبان کی واپسی کے بعد سے خواتین کی عوامی زندگی تیزی سے کم کیا جا رہا ہے، باوجود اس کے کہ طالبان نے 2001 میں ختم ہونے والے اپنے پہلے دور اقتدار میں سخت حکمرانی کے بعد اس بار معتدل نظام حکومت کا وعدہ کیا تھا۔

زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں یا گھر میں رہنے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو بھی کسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت انہیں برقع یا حجاب سے ڈھانپنا ضروری ہے۔

طالبان کی اگست 2021 میں واپسی کے بعد سے نوعمر لڑکیوں کے سکول بھی ملک کے بیشتر حصوں میں بند کر دیے گئے ہیں۔

وزارت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ترجمان محمد عاکف صادق مہاجر نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’جمز کو خواتین کے لیے بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے ٹرینر مرد تھے اور ان میں سے کچھ مشترکہ جم تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمام‘ روایتی عوامی غسل خانے ہیں جو ہمیشہ صنفی بنیادوں پر الگ ہوتے ہیں اور ان پر بھی پابندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال، ہر گھر میں ایک غسل خانہ ہے، اس لیے خواتین کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کلپ میں جم پر پابندی لگایے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، کیمرے کے پیچھے ہٹ کر خواتین کا ایک گروپ دکھایا گیا ہے۔ اے ایف پی اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

’یہ صرف خواتین کا جم ہے ٹیچرز اور ٹرینرز سبھی خواتین ہیں‘ایک آواز جذبات سے ٹوٹتی ہوئی کہتی ہے۔

’آپ ہمیں ہر چیز سے نہیں روک سکتے۔ کیا ہمارے پاس کسی چیز کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

حقوق نسواں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ خواتین پر بڑھتی ہوئی پابندیاں انہیں طالبان کی حکومت کی مخالفت کو منظم کرنے کے لیے جمع ہونے سے روکنے کی کوشش ہے۔

خواتین کے چھوٹے گروپوں نے کابل اور دیگر بڑے شہروں میں متواتر مظاہرے کیے ہیں، جس سے طالبان اہلکاروں کے غصے کا خطرہ ہے جنہوں نے انہیں مارا پیٹا اور حراست میں لے لیا۔

اس ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے اس وقت تشویش کا اظہار کیا جب طالبان نے دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس میں خلل ڈالا، خواتین شرکا کو جامع تلاشی دینے پر مجبور کیا اور ایونٹ کے منتظم اور کئی دیگر افراد کو حراست میں لے لیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا