افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق وہ اپنے سابق امیر ملا محمد عمر کی قبر منظر عام پر لائے ہیں جو افغانستان کے صوبہ زابل میں ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک سلسلہ وار ٹویٹ میں قبر کی چند تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملا محمد عمر کی قبر ایک تقریب کے دوران منظر عام پر لائی گئی ہے۔
ان کے مطابق اس موقع پر طالبان حکومت کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخند، ملا محمد عمر کے صاحبزادے اور وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد سمیت کابینہ میں شامل کئی دیگر وزرا بھی موجود تھے۔
د مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمدعمر مجاهد (رح) قبر دیولړ مراسمو په ترڅ کې ښکاره شو.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 6, 2022
د ا.ا. ا. رئيس الوزراء او د کابینې غړي د زابل سوري ولسوالۍ عمرزو سیمې کې د امیرالمؤمنین زیارت ته تللي وو.
هلته دقرآن کریم ختم وشو او له هیوادوالو وغوښټل شول چې مرحوم ملا صاحب پسې ختمونه او دعا وکړي. pic.twitter.com/CkwbNRXnn6
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ اس موقع پر شرکا نے فاتحہ اور قرآن خوانی بھی کی۔
اس حوالے سے خبر رساں ادارے آر ٹی اے پشتو نے بھی چند تصاویر کے ساتھ کچھ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں۔
ان ویڈیوز میں طالبان کے سابق امیر ملا محمد عمر کے صاحبزادے مولوی محمد یعقوب مجاہد نے والد کے حوالے سے بتایا کہ ’جب میرے والد قندھار سے نکلے تو اسی علاقے میں آئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد اس دوران کچھ دنوں کے لیے ایک اور علاقے گئے لیکن پھر یہیں واپس آئے اور ’وفات تک اسی علاقے میں رہے۔‘
مولوی محمد یعقوب مجاہد گذشتہ سال اکتوبر میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے تھے۔
طالبان کے سابق امیر کی قبر جس تقریب کے دوران منظر عام پر لائی گئی اس سے طالبان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخند نے خطاب میں کہا کہ ’جس اتحاد اور اتفاق سے ہم گذشتہ 20 سے 25 سالوں سے چل رہے ہیں، اسی طرح ہمیں آگے بھی چلنا ہے۔‘
د زابل ولایت په سیوري ولسوالۍ کې د مسلمانانو د ستر محسن امام المجاهدین امیرالمؤمنین مرحوم ملا محمد عمر مجاهد د وروستۍ ارامګاه د څرګندېدو بشپړ راپور!
— RTA Pashto (@rtapashto) November 6, 2022
اوله برخه۱/۳ pic.twitter.com/yvRKP8eVqy
ملا محمد عمر کون تھے؟
افغانستان میں سویت جارحیت کے دور میں ملا محمد عمر مزاحمت کرنے والوں میں عام سے کمانڈر تھے۔
اس کے بعد 1994 میں سابق مجاہدین کے خلاف قندہار سے اٹھنے والی تحریک کی انہوں نے سربراہی کی اور اسی تحریک نے آگے چل کر طالبان کی شکل لی جس نے دو سال بعد 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا۔
ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن نے طالبان کا نظام سنبھال رکھا تھا لیکن نائن الیون کے بعد وہ تتر بتر ہو گئے اور امریکی افواج سے بچنے کے لیے مختلف مقامات پر روپوش رہے۔
مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد بھی ملا محمد عمر امریکی افواج کے ہاتھ نہ آئے۔
کئی سینیئر امریکی رہنماؤں نے شک کا اظہار کیا کہ انہوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی تھی۔