خواتین کی تعلیم، نوکریوں پر پابندی: طالبان کو اندرونی سوالات کا سامنا؟

طالبان رہنماؤں کے ساتھ غیر رسمی رابطوں میں معلوم ہوا کہ طالبان کی اکثریت بھی اس فیصلے سے نالاں ہے لیکن امیر کی اطاعت کے تصور کی وجہ سے کسی نے عوامی سطح پر اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔ تاہم اشاروں کنایوں میں مخالفت ضرور ہورہی ہے۔

23 دسمبر 2022 کو لی گئی اس تصویر میں ایک افغان طالبہ مروہ اپنے بھائی کے ساتھ کابل میں اپنے گھر میں پڑھ رہی ہیں، مروہ ’اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والی پہلی خاتون‘ بننے سے چند قدم دور تھیں (اے ایف پی)

افغانستان میں لوگ گذشتہ سال اگست سے بند لڑکیوں کے ہائی سکول طالبان کے اعلان کے مطابق اس سال مارچ میں کھلنے کا انتظار کررہے تھے تاہم ہائی سکول تو کھل نہ سکے لیکن 20 دسمبر کو یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم بھی معطل کردی۔

یہ ایک غیر مقبول فیصلہ ہے اورافغانستان میں کسی نے بھی اس فیصلے کی حمایت نہیں کی ہے۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کی تعلیم پر پابندی ہے۔

طالبان رہنماؤں کے ساتھ غیر رسمی رابطوں میں معلوم ہوا کہ طالبان کی اکثریت بھی اس فیصلے سے نالاں ہے لیکن امیر کی اطاعت کے تصور کی وجہ سے کسی نے عوامی سطح پر اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔ تاہم اشاروں کنایوں میں مخالفت ضرور ہورہی ہے۔

نائب وزیراعظم عبد الغنی برادر نے 25 دسمبر کو کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانوں کو کسی بھی حق سے محروم نہ کیا جائے۔‘ بظاہر ملا برادر، جو کہ طالبان کے نظام میں طاقتور شخصیات میں سے ایک ہیں، کا اشارہ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کی طرف تھا۔ 

طالبان کے میڈیا وٹس ایپ گروپس اور طالبان اہلکاروں نے سوشل میڈیا میں ملا برادر کی تقریرکا یہ حصہ بہت زیادہ شیئر کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان اس فیصلے پر بالکل بھی خوش نظر نہیں آتے۔  

اگر آج خواتین کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق کئی طالبان رہنما اشاروں میں اپنی نارضگی کا اظہار کر رہے ہیں تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی کی طرح عوامی سطح پر اس طرح فیصلوں کی مخالفت کی جائے گی۔

ملا برادر کے علاوہ طالبان کے ایک مقبول نوجوان رہنما انس حقانی نے اپنے ٹوئٹر پر پشتو اشعار میں اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

 

وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کے پشتو اشعار کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ’میں اتنا رویا ہوں کہ مزید رونا نہیں آتا۔ انکھوں سے گرانے کے لیے مزید آنسو نہیں ہیں۔ جب پشتونوں میں جرگہ اور سوال پوچھنا اثر نہیں رکھتا تو انس، خاموش رہنا ہی اچھا ہے، کیونکہ کسی کی بات ماننے کی نیت ہی نہیں ہے۔‘ 

طالبان کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم، شیخ ندا محمد ندیم نے یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے چار دلائل دیے ہیں۔ ان میں دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والی طالبات کا ہاسٹلوں میں ٹھہرنا، مخلوط  نظام تعلیم، مکمل حجاب پر عمل نہ کرنا اورتعلیمی نصاب میں اصلاحات کا نہ ہونا تھا۔ یہ دلائل ایسے بالکل بھی نہیں جن کو بنیاد بنا کرخواتین پر تعلیم کے دروازے بند کیے جائیں۔ 

وزیر تعلیم کی شرائط پوری کی جا سکتی ہیں اور شرائط پوری کرنے میں حکومت کا کردار زیادہ ہے لیکن وزیر تعلیم نے پابندی ہی کو مناسب سمجھا۔ 

تعلیمی نصاب میں اصلاحات متعارف کرانا تو ویسے بھی طالبان حکومت اور تعلیم سے متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر طلبان حکومت ابھی تک نصاب میں اصلاحات متعارف نہیں کرا سکی تو اس کی ذمہ داری خواتین کی تعلیم پر کسی بھی صورت میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ 

پابندی کے لیے ہاسٹلوں میں طالبات کی رہائش کی دلیل حیران کن ہے۔ طالبات خوشی سے ہاسٹل میں رہائش پذیر نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایک جائز مجبوری ہے۔ کابل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی خوست کی رہائشی خاتون نے تو کابل ہاسٹل میں ہی رہنا ہے، جس کا کابل میں گھر نہ ہو۔ اگر طالبان وزیر تعلیم کو اس پر اعتراض ہے تو ان کو اس مسلے کا حل بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ 

حجاب کا مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ حل نہ ہوسکے۔ اکثر خواتین پہلے سے حجاب کرتی ہے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ مخلوط تعلیم کا مسئلہ حل کرنا بھی طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے۔ 

اعلیٰ تعلیم کے سابق وزیر مولوی عبدالباقی حقانی نے اس سال اگست میں کابل میں ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ خواتین کی تعلیم سے متعلق کئی تجاویز پرغور ہوریا ہے جن میں طالبات کے لیے الگ عمارتیں، کلاسز میں پردہ لگانا یا طلبہ اور طالبات کے لیے مختلف اوقات میں شفٹ شامل تھی۔ طالبان کے ایک عہدیدار کا خیال ہے کہ مولوی حقانی کو اس لیے اپنے عہدے سے ہٹایا گیا تھا کیونکہ وہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندیوں کے مخالف تھے۔ 

یہ طالبان کا ایک غلط تصور ہے کہ امریکا یا مغربی ممالک ان کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی کی اسلامی تعاون تنظیم اور سعودی عرب، پاکستان، قطر، متحدہ عرب امارات سمیت کئی اسلامی ممالک نے مذمت کی ہے۔ مغربی اور اسلامی دنیا نے ایک موقف اپنا کر طالبان کو واضح پیغام دیا ہے۔

طالبان اگر دنیا کی مخالفت کو نظر انداز کرتے بھی ہیں تو ان فیصلوں سے براہ راست متاثر ہونے والے افغانوں کی مخالفت کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

 طالبان رہنماؤں کی کوششیں

افغان میڈیا کے مطابق وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور وزیرداخلہ سراج الدین حقانی طالبان امیر شیخ ھبتہ اللہ سے ملاقات کے لیے قندھار گئے تھے تاکہ ان سے خواتین کی تعلیم سے متعلق اپنی تشویش پر بات کر سکیں، لیکن ایک طالبان رہنما کے مطابق یہ ملاقات نہیں ہوئی ہے۔  

طالبان امیر جن سے ملاقات کرنا چاہتے ہوں ان کو خود قندھار بلایا جاتا ہے۔ طالبان امیر کے ساتھ ملاقات  گورنر قندھارحاجی یوسف وفا سے ملاقات کے بعد ممکن ہوتی ہے۔ گورنر وفا طالبان امیر کے ایک وفادار طالبان رہنما ہیں اور طالبان حکومت بننے کے بعد ان کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ 

ایک طالبان رہنما کے مطابق اب طالبان کے امیر شوریٰ کی بجائے چند بااعتماد رہنماؤں کے ساتھ مشورے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ ماضی میں اہم فیصلے کرنے والی رہبری شوریٰ کا اخری اجلاس گزشتہ سال اگست میں قندھار میں ہوا تھا جس میں حکومت سازی اور مستقبل سے متعلق تین دن تک مشورے ہوتے رہے۔ 

قندھار کی اس شوریٰ کے اجلاس کے بعد شوریٰ کا اس طرح اجلاس نہیں ہو سکا ہے اور طالبان امیر کبھی کبھی مشوروں کے لیے شوریٰ ممبران کو گروپس میں یا انفرادی طور پر بلاتے ہیں لیکن اکثر فیصلے خود یا اپنے کئی بااعتماد ساتھیوں سے مشورے کے بعد کرتے ہیں۔ 

افغان سیاسی رہنما مخالفت میں متحد

سابق صدور اشرف غنی اور حامد کرزئی کے علاوہ امن کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار نے طالبان فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں سیکولر عناصر کہا کرتے تھے کہ اسلامی تنظیمیں حکومتیں نہیں چلا سکتیں اور طالبان کے فیصلے نے اس موقف کو تقویت پہنچائی ہے۔ 

افغانستان کے اندر اور باہر تنقید کے باوجود طالبان کے پالیسی سازمتاثر نہیں ہوئےاور فیصلوں میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا گیا۔ چند وزرا نے روایتی الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ یہ الفاظ گزشتہ سال اگست سے لڑکیوں کے سکولوں کی بندش کے بعد روزانہ سننے میں آیا ہے لیکن لڑکیوں کے سکول تو کیا یونیورسٹیوں کے دروازے بھی خواتین پر بند کر دیے گئے ہیں۔

خواتین کی تعلیم پر پابندی کے بعد یونیورسٹیوں کے درجنوں اساتذہ نے استعفیٰ دیا ہے اور کئی یونیورسٹیوں میں طلبہ نے طالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر امتحانات اور کلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہے۔

افغان اعلیٰ تعلیم کے وزیر کون ہیں؟

یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعلیم پر پابندی کے اعلان کے بعد اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم کے متعلق سوالات ہو رہے ہیں کہ متعلقہ وزیر کون ہیں۔ 

طالبان رہنماؤں سے رابطوں میں معلوم ہوا کہ ندا محمد ندیم کو اہم معاملات پر طالبان سربراہ کے ساتھ یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے انہیں مولوی عبدالحق حقانی کی جگہ اعلیٰ تعلیم کا وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ ندا محمد ندیم کا تعلق قندھار سے ہے اور وہاں انہوں نے حلیمیہ کے نام سے ایک مدرسہ تعمیر کیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کابل پر طالبان کنٹرول کے وقت وہ مشرقی صوبے ننگرہار میں جنگ کے دوران طالبان کے تقریباً دو سال تک ’شیڈو‘ گورنر تھے جنہیں بعد میں ننگرہار پر طالبان کنٹرول کے بعد اسی صوبے کا باقاعدہ گورنر مقرر کیا گیا۔ وہ  کچھ عرصے کے لیے کابل صوبے کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ 

ندا ندیم طالبان انٹیلی جنس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں۔ طالبان کے اکثر اہم رہنما رہبری شوریٰ کے ارکین ہوتے ہیں لیکن ندا ندیم شوریٰ کے کبھی رکن نہیں رہے ہیں۔ 

جنگ کے دوران طالبان کئی ممالک سے رابطوں کے لیے نمائندے مقرر کیا کرتے تھے اور وہ بھی پشاور میں پاکستان کے لیے طالبان کے نمائندوں میں وفد کے رکن تھے۔

طالبان دنیا سے ان کی حکومت تسلیم نہ کرنے پر مایوس ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان قیادت نے دنیا کا کوئی ایک مطالبہ تسلیم کیا ہے؟ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث افغانستان اور دنیا بھرمیں سخت تنقید جاری تھی کہ طالبان نے ملکی اور غیر ملکی این جی اوزمیں خواتین کو کام کرنے سے روک دیا۔ 

 دنیا طالبان سے مسلسل مطالبہ کر رہی ہے کہ قطر معاہدے میں بین الافغانی مذاکرات کی بنیاد پر ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے، خواتین کی تعلیم پر پابندی ختم کی جائے، خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے، شدت پسند گروپس کو اپنی سرزمین استعمال سے روکا جائے اور مقامی اور غیر ملکی این جی اوز میں خواتین کو کام سے روکنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ 

طالبان رہنما ان مطالبات کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کرتے رہے ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے کہ طالبان پہلے ملک کے اندر قانونی حیثیت حاصل کریں اور بعد میں دنیا سے تسلیم ہونے کا مطالبہ کریں۔

 

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ