خواتین پر طالبان پابندیاں: خاتون کی سربراہی میں اقوام متحدہ وفد کابل میں

طالبان کے خارجہ امور کے سربراہ امیر خان متقی نے کابل میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد سے ملاقات میں کہا کہ ’ہم نے اپنی طرف سے بہت کچھ کیا لیکن دنیا ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے۔‘

طالبان کے خارجہ امور کے سربراہ امیر خان متقی کابل میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد سے ملاقات کے موقعے پر (افغان طالبان میڈیا)

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اقوام متحدہ کے سب سے اعلیٰ سطح کے ایک وفد نے اپنے دورہ کابل کے دوران افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ کام اور تعلیم کے شعبے میں خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں پر نظرثانی کرے۔

وفد کی سربراہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد نے یہ درخواست طالبان کے نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی سے ملاقات کے دوران کی۔

نائب وزیر اعظم کے دفتر سے شائع ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق: ’امینہ محمد نے خواتین کے کام اور تعلیم کی ممانعت سے متعلق حالیہ احکامات کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں نظرثانی کی درخواست کی۔‘

اس وفد نے طالبان کی وزارت خارجہ سمیت دیگر طالبان حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اقوام متحدہ کے اس وفد کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت ایک خاتون کر رہی ہیں۔ اس سے قبل پاکستانی وزیر مملکت حنا ربانی کھر بھی پاکستانی وفد کی کابل میں قیادت کر چکی ہیں۔

طالبان کے نائب وزیراعظم کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی درخواست کے جواب میں انہوں نے کیا کہا ہے۔

وفد میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری امینہ محمد، سیکریٹری سیاسی امور خالد، قیام امن  اور ریسرچ براڈکاسٹنگ میں اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے خواتین کے دفتر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر موجود ہیں۔

طالبان کے خارجہ امور کے سربراہ امیر خان متقی نے تاہم کابل میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد سے ملاقات میں کہا کہ ’ہم نے اپنی طرف سے بہت کچھ کیا لیکن دنیا ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے۔‘

وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد توکل نے اس اجلاس سے امیر خان متقی کی تقریر کا ایک حصہ جاری کیا ہے۔

اپنی تقریر میں متقی نے امینہ محمد سے کہا: ’بحیثیت خارجہ امور کی اہلکار، مجھے آپ کو، اپنی حکومت اور عوام کو مطمئن کرنا چاہیے۔ اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے افغانستان میں پابندیاں ہیں، ہمارے بینک پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہمارے تاجروں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے، وہ خوراک کی ترسیل کے لیے رقم بھی منتقل نہیں کر سکتے۔‘

اجلاس میں آمنہ محمد اور وفد کے دیگر ارکان کی باتوں کے بارے میں کچھ بھی شائع نہیں کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گذشتہ ہفتے 'خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر غیر معمولی اور منظم حملوں' کی مذمت کی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان پہنچنے سے قبل وفد نے خطے، خلیج، ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور پائیدار ترقی پر مشاورت کی تھی۔

ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے عہدیداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے کام کرنے اور تعلیم تک رسائی کے حقوق کے معاملے پر ’صورت حال کی نزاکت‘ سے آگاہ کریں۔

ایک اور ترجمان نے بتایا کہ یہ دورہ ایک سابق افغان قانون ساز کے قتل کے بعد کیا جا رہا ہے جنہیں کابل میں ان کے گھر پر قتل کر دیا گیا تھا۔

دسمبر کے اواخر میں طالبان نے افغان خواتین کے ساتھ کام کرنے والی این جی اوز پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے بعد متعدد تنظیموں نے اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔

طالبان حکام کی جانب سے خواتین کو صحت کے شعبے میں کام جاری رکھنے کی یقین دہانی کے بعد ان میں سے کم از کم تین نے جزوی طور پر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے نائب سربراہ کی قیادت میں وفد نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے جس پر طالبان حکمرانوں نے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

’ایک مسئلہ تعلیم کا ہے۔ یہاں اگر ایک ملین افراد کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہیں تو نو ملین جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ان سے کیوں تعاون نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی تو انسان ہیں، تعلیم ان کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں بھی تو طلبہ و طالبات شامل ہیں۔ افغان حکومت کو تسلیم کرنے مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ میں افغانستان کا مستقل مندوب اب تک ایسا شخص ہے جو نہ عوام کا نمائندہ ہے، نہ حکومت کا نمائندہ ہے نہ اور کسی فریق کا نمائندہ ہے۔‘

متقی نے تنقید کی ان کی حکومت کو ابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے دوحہ معاہدے کے مطابق ان کے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے نکالے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ’ دوحہ معاہدے میں یہ اتفاق ہوا تھا کہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے نکالے جائیں گے، اب تک نہیں نکالے گئے۔ جب تک ہمارے رہنما باہر ممالک نہیں جاسکیں گے، وہاں ملاقاتیں اور مذاکرات نہیں ہوں گے، اقوام متحدہ اور عالمی دنیا سے بات چیت نہیں ہوگی تو  تعلقات میں بہتری کیسے آئے گی۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین کے حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں تاہم طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ’شرعی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق دیے ہیں۔‘

سردی سے 70 ہلاکتیں

اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں شدید موسم کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

10 جنوری کے بعد سے کابل اور کئی دیگر صوبوں میں پارہ کافی گرا ہے اور وسطی علاقے غور میں ہفتے کے اختتام پر منفی 33 سینٹی گریڈ (منفی 27 فارن ہائیٹ) کی کم ترین ریڈنگ ریکارڈ کی گئی۔

افغانستان کے محکمہ موسمیات کے سربراہ محمد نسیم مرادی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ موسم سرما حالیہ برسوں میں اب تک کا سب سے سرد موسم ہے۔

دیہی علاقوں میں بے گھر خاندانوں کو سردی سے بچنے کے لیے کیمپ فائر کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ برف سے ڈھکے دارالحکومت میں کوئلے کے ہیٹروں کا استعمال زیادہ خوش قسمت افراد نے کیا۔

مرادی نے کہا، ’ہمیں توقع ہے کہ سردی کی لہر مزید ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رہے گی۔‘

قدرتی آفات سے نمٹنے کی وزارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ آٹھ روز کے دوران 70 افراد اور 70 ہزار مویشی ہلاک ہوئے جو افغان معاشرے کے غریب ترین علاقوں میں ایک اہم اثاثہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا