افغانستان کی ’نڈر‘ خاتون سابق رکن پارلیمنٹ قتل

کابل پولیس کے مطابق مرسل نبی زادہ کو ایک محافظ سمیت ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

ایک خاتون اپنے موبائل فون پر سابق افغان قانون ساز مرسل نبی زادہ کی تصویر دیکھ رہی ہے، جنہیں 14 اور 15 جنوری کی درمیانی رات کابل میں ان کے گھر پر مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا (اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کی پولیس نے اتوار کو بتایا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے رات کے وقت گھر پر حملہ کر کے سابق خاتون قانون ساز اور ان کے ایک محافظ کو ہلاک کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مرسل نبی زادہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے دور میں افغان پارلیمان کی رکن تھیں۔ طالبان نے اگست 2021 میں اس حکومت کو ختم کر کے اقتدار سنبھالا تھا۔

کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بتایا: ’ نبی زادہ کو ان کے ایک محافظ کے ساتھ ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

’سکیورٹی فورسز نے واقعے کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات شروع کر دی ہے۔‘

ترجمان نے مزید بتایا کہ حملے میں سابق رکن پارلیمان کے بھائی بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کیا گیا۔

افغان پارلیمان کی سابق رکن مریم سلیمان خیل نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ نبی زادہ ’افغانستان کی نڈر رہنما تھیں۔ انہوں نے حقیقت میں دوسروں کے لیے راستہ بنایا۔ وہ ایک مضبوط اور رائے کا اظہار کرنے والی خاتون تھیں جو خطرے کے باوجود اپنی بات پر قائم رہتی تھیں۔‘

مریم سلیمان خیل کا مزید کہنا تھا: ’افغانستان چھوڑنے کی پیشکش کے باوجود انہوں نے یہیں رہنے اور اپنے لوگوں کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘

32 سالہ نبی زادہ کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار سے تھا۔ وہ 2018 میں کابل سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ ان کے قتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ کی رکن حنہ نیومن کا ٹویٹ میں کہنا تھا: ’مجھے دکھ اور غصہ ہے اور میں چاہتی ہوں کہ دنیا کو معلوم ہو!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انہیں اندھیرے میں قتل کیا گیا لیکن طالبان دن دہاڑے صنفی امتیاز پر مبنی نظام قائم کر رہے ہیں۔‘

افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد سے دو دہائیوں تک خواتین نے افغان معاشرے میں نمایاں عہدوں پر کام کیا۔ بہت سی خواتین جج، صحافی اور سیاست دان بنیں۔

 طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے پیشوں سے وابستہ بہت سی خواتین ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں۔

طالبان حکام نے خواتین کو عوامی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں سے باہر کر دیا ہے۔

خواتین پر ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سمیت سرکاری ملازمت اور یہاں تک کہ عوامی پارکوں اور حماموں میں جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ طالبان نے خواتین کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر پورے جسم کو ڈھانپنے والا برقع اوڑھیں۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان | ترجمہ: علی رضا)

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین