افغان خاتون الہٰا دلاورزئی اسلام آباد پہنچنے کے بعد کہاں گئیں؟

’ایک دن اچانک الہٰا نے ایمنیسٹی کے وکیل کو پیغامات بھیجے کہ وہ جلد ہی دوسرے وکیل کا بندوسبت کر رہی ہیں اور غیر سرکاری تنظیم کے ایک عہدیدار پر الزام لگایا کہ انھوں نے الہٰا کا پتہ اور تصاویر افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے لوگوں سے شئیر کی ہیں۔‘

15 اکتوبر 2022  کو ایک افغان طالبہ صوبہ پروان میں خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے (اے ایف پی)

افغان طالبان کے ڈر سے پاکستان فرار ہونے والی افغان خاتون الہٰا دلاورزئی گذشتہ ایک ہفتے سے لاپتہ ہیں اور ان کے خاندان کے مطابق خاتون کا نمبر بھی بند ہے، نیز ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔

الہٰا کے خاندان کے ایک فرد نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ ’الہٰا 11 نومبر کو گھر سے نکلی تھیں، واپس نہیں آئی ہیں اور نہ ان سے رابطہ ہو رہا ہے۔ ہم نے انہں بہت تلاش کیا لیکن ہمیں ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘

 الہٰا دلاورزئی نے رواں سال ستمبرمیں افغان طالبان کے  زیر انتظام وزارت داخلہ کے سابق ترجمان سعید محمد خوستی پر الزام لگایا تھا کہ خوستی نے پہلے ان کو ’جیل میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور بعد میں ان سے زبردستی شادی کی۔‘

 سعید محمد خوستی نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی اور ٹوئٹر پر انھوں نے نکاح نامہ سمیت نکاح کی تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نکاح خاتون کی مرضی سے ہوا تھا اور اس میں کسی قسم کی زبردستی شامل نہیں تھی۔

 سعید خوستی نے 31 آگست کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں نے چار ماہ پہلے الہٰا سے ان کی مرضی سے شادی کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ الہٰا کے عقائد ٹھیک نہیں ہیں۔ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں سمجھیں اور پھر اپنا شرعی حق استعمال کر کے میں ان کو طلاق دی۔ میں نے ان کو نہ مارا ہے، نہ کچھ کہا، صرف ان سے راہیں الگ کی ہیں۔‘

بعد ازاں الہٰا دلاورزئی کی چند ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں دیکھا جا سکتا تھا کہ الہٰا گھر کے اندر ہاتھ میں بیلچہ لیے دروازے پر موجود ہیں اور وہ سعید خوستی کو گھر کے اندر نہیں آنے دے رہی ہیں اور ان کے درمیان جھگڑا جاری ہے۔

اس واقعے کے بعد کئی روز الہٰا کے حوالے سے خاموشی تھی لیکن اب رپورٹس سامنے آ رہی ہیں کہ الہٰا اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئی ہیں۔

14 نومبر کو کینیڈا کے اخبار دی سٹار پر الہٰا کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے سعید خوستی پر اپنے الزامات دہرائے اور مزید بتایا کہ وہ طب کی طالبہ تھیں اور طالبان کے قبضے کے چھ ماہ بعد کابل کے علاقے خیر خانہ میں انہیں چیک پوسٹ پر طالبان کی جانب سے روک دیا گیا۔

الہٰا نے اخبار کو بتایا کہ ’میرا موبائل جب چیک کیا گیا تو اس میں افغانستان کی سابق فوج کی کچھ تصاویر تھیں کیونکہ میرے والد بھی سابق حکومت کے دوران ملٹری میں اعلیٰ عہدیدار تھے، اور اسی وجہ سے مجھے حراست میں لیا گیا۔‘

اخبار کے مطابق جیل میں کچھ وقت گزارنے کے بعد، انہیں وزارت داخلہ کے زیر انتظام جیل منتقل کیا گیا جہاں دیگر خواتین بھی قید تھیں۔ ’کچھ دن بعد سعید خوستی اسی جیل میں آئے اور انھوں نے مجھے دیکھ کر شادی کی پیشکس کی جو میں نے ٹھکرا دی، انکار پر انھوں نے مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور مجھ سے اگلے روز زبرستی شادی کی۔‘

جنسی تشدد کے بارے میں الہٰا نے اخبار دی سٹار کو بتایا کہ ایک رات ان کے پاؤں بیڈ کے ساتھ باندھے گئے، اور انہیں سعید خوستی کی جانب سے شدید جنسی تشدد کا نشان بنایا گیا۔

انٹرنیشل ہیومن رائٹس واچ نے بھی الہٰا کو تحفظ فراہم کرنے اور طالبان سے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

 الہٰا اسلام آباد کیسے آئیں؟

 دی سٹار کے لیے انٹرویو کرنے والے افغان صحافی مطیع اللہ شیرزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ الہٰا طالبان کے ڈر سے افغانستان چھوڑ کر اپنے خاندان سمیت پاکستان چلی گئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ 11 نومبر کو انھوں نے الہٰا کا انٹرویو کیا اور رات گئے الہٰا نے انہیں کچھ پیغامات موبائل پر بھیجے تھے جو صبح اٹھنے کے بعد انہوں نے پڑھے۔  

مطیع اللہ کے مطابق ’پیغامات میں الہٰا نے بتایا کہ ان پر خاندان کی جانب سے بہت دباؤ ہے کہ الہٰا کی وجہ سے وہ سب پاکستان میں بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ الہٰا کے مطابق جس ہوٹل میں وہ لوگ رہتے تھے، وہ بہت بری حالت میں تھا۔‘

مطیع اللہ نے بتایا کہ الہٰا کے والد سابق افغانستان حکومت میں میجر جنرل کے عہدے پر تھے۔

’الہٰا کے مطابق خاندان والے ان پر افغانستان واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ تاہم پیغامات پڑھنے کے بعد صبح جب میں نے ان سے رابطہ کرنا چاہا تو ان سے رابطہ نہیں ہو پایا جبکہ خاندان والوں کے ساتھ بھی انھوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔‘

مطیع اللہ نے بتایا ’الہٰا نے مجھے یہ تو کہا تھا کہ وہ واپس افغانستان جانا چاہتی ہیں کیونکہ ان پر دباؤ ہے تاہم اب یہ معلوم نہیں کہ وہ واقعی افغانستان واپس جا چکی ہیں یا کسی اور جگہ انھوں نے پاکستان میں پناہ لی ہے۔‘

مطیع اللہ کے مطابق الہٰا اور ان کے خاندان والوں میں سے کسی کے پاس بھی سفری دستاویزات نہیں تھے اور وہ غیر قانونی طریقے سے خاندان سمیت پاکستان داخل ہوئی تھیں۔

الہٰا کے ’لاپتہ‘ ہونے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں واقع کابل سفارت خانے کے اہلکار ذبیح اللہ افغان سے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے کابل کے پولیس سربراہ خالد زدران سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کریں لیکن ان کی جانب سے بھی کوئی موقف انڈپینڈنٹ اردو کو موصول نہیں ہوا۔

تاہم امریکہ، پاکستان اور افغانستان میں رجسٹرڈ ایک غیر سرکاری تنظیم جو افغانستان سے باہر پناہ لینے والوں کو مدد فراہم کرتی ہے، کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط (کیونکہ نام ظاہر کرنے سے ان کی ٹیم خطرے میں پڑ سکتی ہے) پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ الہٰا کو افغانستان سے پاکستان متنقل کرنے میں ان کی تنظیم نے مدد فراہم کی تھی۔

تنظیم کے عہدیدار نے بتایا کہ ’الہٰا کو افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کے بعد اسلام آباد میں ایک محفوظ جگہ پر رکھا گیا اور وہاں ان کو ایک گھر فراہم کیا گیا جہاں وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہتی تھیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جس جگہ میں وہ رہتی تھیں وہاں ہر وقت سکیورٹی کا حصار موجود ہوتا ہے۔ ہم نے ان کے اور خاندان والوں کو کینیڈا بھیجنے کے لیے دستاویزات پر کام شروع کیا ہوا تھا۔‘

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے کینیڈا کی دستاویزات تیار کر لیں اور بس جانے کی دیر تھی تو الہٰا نے اچانک ہمیں کہا کہ وہ کینیڈا نہیں بلکہ امریکہ جانا چاہتی ہیں، اور آپ لوگوں کی تنظیم نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے کہ کینیڈا کی دستاویزات تیار کر دی ہیں۔‘

’ہم نے ان سے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم امریکی ویزے کے لیے اپلائی کرتے ہیں اور تمام دستاویزات پر کام شروع کر رہے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس الہٰا کی امریکی امیگریشن کی دستاویزات کی کاپیز بھی موجود ہیں۔ دستاویزات کے مطابق الہٰا کے لیے متعلقہ غیر سرکاری تنظیم نے 13 اکتوبر کو ویزا فارم اور باقی کاغذات جمع کروائے تھے۔

یہ فارم امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی میں جمع کیا گیا تھا تاکہ الہٰا اور ان کے خاندان کے لیے امریکی ویزا حاصل کیا جا سکے۔ دستاویزات کے مطابق الہٰا سمیت ان کی بہن، والدہ، اور والد کے بھی امریکہ ویزا کے لیے فارمز جمع کیے گئے تھے۔

اسی کیس کو آگے بڑھانے اور امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے لیے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ایک اٹارنی الہٰا اور ان کے خاندان کو تعاون فراہم کر رہی تھیں۔

تاہم ایک دن اچانک غیر سرکاری تنظیم کے عہدیدار کے مطابق ’انھوں نے ایمنیسٹی کے وکیل کو پیغامات بھیجے کہ وہ جلد ہی دوسرے وکیل کا بندوسبت کر رہی ہیں اور غیر سرکاری تنظیم کے ایک عہدیدار پر الزام لگایا کہ انھوں نے میرا پتہ اور تصاویر افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے لوگوں سے شئیر کی ہیں۔‘

جو پیغامات وٹس ایپ پر ایمنیسٹی کے اٹارنی کو بھیجے گئے، اس خبر کے سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ان کا بغورجائزہ لیا۔ پیغامات میں الہٰا نے لکھا کہ ’میں بہت جلد نئے وکیل کا بندوست کر رہی ہوں۔ میں غیر سرکاری تنظیم کے عہدیدار کے خلاف جنگ شروع کرنے والی ہوں جنھوں نے میرا پتہ اور تصاویر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ شیئر کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پیغامات میں ایمنیسٹی کے وکیل کو مزید لکھا گیا ہے کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی تو نہیں کر رہی، تاہم متعلقہ تنظیم کی شکایات ضرور بھیجیں گی۔

پیغام میں لکھا گیا ہے ’مجھے اور میرے خاندان کو اگر کچھ بھی ہوا تو ذمہ داری آپ لوگوں پر ہو گی۔‘

غیر سرکاری تنظیم کے عہدیدار کے مطابق انھوں نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اب تک 10 ہزار افراد کو کابل سے باہر نکالا ہے اور ان کو تمام سپورٹ فراہم کی ہے ’لیکن الہٰا کے کیس پر ہم نے دو مہینے کام کیا اور اچانک وہ تبدیل ہو گئیں۔‘

عہدیدار کے مطابق ’ہو سکتا ہے الہٰا کو ذہنی دباؤ کا سامنا ہو۔‘

عہدیدار نے بتایا کہ ’گھر چھوڑنے کے بعد ہم نے بھی ان کا کیس بند کردیا کیونکہ ان کی وجہ سے ہمارے دیگر سٹاف کو سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔ وہ سرعام ہم پر الزامات لگاتی تھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین