افغان فضائی حدود میں پروازوں کی واپسی

یورپ اور ایشیا کی فضائی کمپنیوں سمیت 80 سے 100 کے قریب پروازیں روزانہ افغانستان آ اور جا رہی ہیں۔

26  اکتوبر 2021 کی اس تصویر میں افغان طالبان کا ایک رکن دارالحکومت کابل کے ایئرپورٹ پر ایک طیارے کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

افغانستان کی سابق حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں افراتفری اور خوف و ہراس کی فضا، لوگوں کے بڑے پیمانے پر انخلا اور ملکی فضائی حدود کی بندش کے ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے بعد بین الاقوامی پروازیں دوبارہ سے افغانستان کی فضا میں اڑان بھر رہی ہیں، جس سے سخت گیر طالبان کی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔

طالبان کی وزارت نقل و حمل اور ہوا بازی کے ترجمان عماد الدین احمدی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اب ہر روز 80 سے 100 کے قریب پروازیں افغانستان آ  اور جا رہی ہیں۔ ان میں یورپ اور ایشیا کی فضائی کمپنیوں کی پروازیں بھی شامل ہیں۔

افغان فضائی حدود استعمال کرنے والی ہر پرواز سے طالبان حکومت کو سات سو امریکی ڈالرز  کی آمدن ہوتی ہے۔

جمعرات کی شام دبئی جانے والی دو پروازیں افغانستان کی فضائی حدود سے گزریں۔ یہ ان کُل 14 پروازوں میں شامل ہیں، جو ہر روز ملک کی فضائی حدود سے گزرتی ہیں۔

یہ پروازیں 2016 سے طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے لیے خوشخبری ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال طاقت کے ذریعے امریکہ کی زیر قیادت انتظامیہ سے کنٹرول لیا اور صدارتی محل پر دھاوا بول کر اقتدار میں واپس آئے۔

گذشتہ سال کابل کی سڑکیں ایسے لوگوں سے بھر گئی تھیں، جو ملک سے باہر جانے کے لیے بے چین تھے۔ افغان شہریوں کے بڑے پیمانے پر ملک چھوڑنے کے عمل کے نتیجے میں ملک بھر کے ہوائی اڈے تباہی کا شکار ہو گئے تھے اور آسمان پر خاموشی چھا گئی تھی۔

چھ ماہ قبل تک طالبان انتظامیہ کو 24 گھنٹے میں اپنی فضائی حدود میں چلنے والی 50 سے بھی کم پروازوں کے مایوس کن اعداد و شمار کا سامنا تھا، تاہم اب فضائی ٹریفک میں زیادہ تر مسافر پروازیں شامل ہیں۔

طالبان عہدے دار نے کابل سے ٹیلی فون پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اب دوسرے لوگ افغانستان کی فضائی حدود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی فضائی حدود کے استعمال میں اضافے کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے فضائی حدود کا استعمال بڑھ گیا۔‘

پورے افغانستان میں فضائی راہداری کی بتدریج بحالی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب طالبان نے اپنے شہریوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

افغان خواتین، جنہیں پہلے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا، اب ان کے کابل کے عوامی پارکوں میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اتوار کو سپریم لیڈر اخوندزادہ نے ملک کے ججوں سے کہا تھا کہ وہ شرعی قانون کے مطابق ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے جیسی سزائیں دیں۔

ڈکیتی، اغوا اور بغاوت جیسے جرائم میں اب اسلامی شرعی قانون کی طالبان کی تشریح کے مطابق سزا دی جائے گی۔ یہ عمل 1990 کی دہائی میں طالبان کی حکمرانی جیسا ہے، جس پر انہوں نے گذشتہ سال اگست میں افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد نظرثانی کا عزم کیا تھا۔

تاہم عالمی سطح پر فضائی حدود پر نظر رکھنے والے ماہرین افغان فضائی حدود کو محفوظ خیال نہیں کرتے۔

عالمی رسک مینیجمنٹ کمپنی نے افغانستان کی فضائی حدود کو خطرے کی سطح کی کیٹیگری میں ’تشویش ناک‘ قرار دے رکھا ہے۔

کمپنی کے مطابق: ’ضروری نہیں کہ افغانستان کے اندر بھی پرواز کرنا محفوظ ہو۔ افغان فضائی کمپنیوں نے حفاظت اور سکیورٹی کے معیارات میں خطرناک حد تک نرمی کی ہے اور اس وجہ سے آریانا، صافی، پامیر اور کام ایئر سمیت کسی بھی ملکی کمپنی کو یورپی یونین کی فضائی حدود میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

اسلام آباد، مزار شریف، انقرہ، جدہ، ابو ظبی، ہرات، مشہد اور استنبول جیسے بڑے شہر ان شہروں میں شامل ہیں، جن کے لیے افغان فضائی حدود سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہیں۔

افغانستان میں زیادہ تر دو فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں ایک کام ایئر اور دوسری آریانا افغان ایئر لائنز ہے۔ مشکلات کا شکار طالبان انتظامیہ کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے میں زیادہ تر کردار ان ہی کمپنیوں کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کابل کے سقوط سے قبل امریکی قیادت میں اشرف غنی کی حکومت میں خدمات انجام دینے والے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فضائی حدود کی بحالی ملک سے جانے والے امریکی اور دیگر مغربی اہلکاروں کی ترجیح میں سر فہرست نہیں تھی، لیکن طالبان حکومت کے ماتحت ہوا بازی کے شعبے کو ادا کیا جانے والا ایک پیسہ بھی وہ پیسہ ہے جو نسل کشی کے دھانے پر پہنچے مظالم کے لیے ہے۔

سلامتی کونسل دفتر میں بین الاقوامی تعلقات اور علاقائی تعاون کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرنے والے احمد شجاع کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے اس حصے سے گزرنے والی ان درجنوں پروازوں سے ایک ایسی انتظامیہ کو معقول آمدن حاصل ہوتی ہے جو اس وقت بدترین نظام چلا رہی ہے۔‘

شجاع 15 اگست 2021 تک دارالحکومت کابل میں رہے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کابل ہوائی اڈے پر صورت حال کسی قدر بہتر رہے۔ نیٹو اور امریکی حکام کی جانب سے نئی انتظامیہ کو اقتدار منظم انداز میں منتقل کیا جانا چاہیے تھا، لیکن حالات انسانی بحران میں تبدیل ہو گئے۔

شجاع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’15 اگست کے دن آخر تک بھی ہوائی اڈے پر حالات ٹھیک تھے۔ 15 اور 16 اگست کی صبح کے دوران حالات مکمل طور خراب ہوگئے۔

’ہوائی اڈے کی سکیورٹی دستیاب نہیں تھی اور یہ کہ جب طالبان آئے تو دنیا کو خوفناک مناظر دکھائی دیے کہ بے چینی کے شکار لوگ ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ باہر جانے کے لیے اڑتے ہوئے طیارے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔‘

جیسے ہی طالبان جنگجو آہستہ آہستہ کابل اور اس کے بعد امریکی فوجیوں کی طرف سے پیچھے چھوڑے گئے آدھے تباہ شدہ ہیلی کاپٹروں کی تلاش میں ایئرپورٹ میں داخل ہوئے، اس کی عمارت کو بنیادی نقصان پہنچا۔ افراتفری میں ٹرمینل، جانے اور آنے والے مسافروں کی میزبانی کرنے والے حصے، کمپیوٹر اور دیگر مشینری تباہ ہو گئی۔

لیکن افغان شہری ہوا بازی کے شعبے کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب امریکی ٹھیکے دار آگ کو قابو میں رکھنے والے انجن جیسے آلات بھی ساتھ لے گئے اور دفاعی نظام ناکارہ بنا دیے۔ امریکی فوج نے 73 ہیلی کاپٹروں میں سے فوجی آلات نکال لیے اور 70 ایم آر اے پی آرمرڈ وہیکلز اور کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کرنے والا سی۔آر اے ایم فضائی دفاعی نظام بھی ناکارہ بنا دیا تھا۔

احمد شجاع نے کہا: ’افغان حکومت 15 اگست کے بعد قائم رہنے میں کامیاب بھی ہوگئی لیکن کابل ہوائی اڈے، مظہر ہوائی اڈے، ہرات ہوائی اڈے اور قندھار ہوائی اڈے کی پروازوں کو بین الاقوامی ٹرمینلز کے طور پر سنبھالنے کی صلاحیت نمایاں طور پر کم ہوئی، حتیٰ کہ سرٹیفکیشن کی سابقہ سطح کے تقاضے بھی پورے نہ کر سکی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 80 سے 100 پروازیں ’دنیا کی بدترین آمرانہ حکومت، جو صنفی امتیاز سے کام لے رہی ہے، اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کے مترادف کارروائیوں میں ملوث ہے، لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم پر پابندی لگا رہی ہے، ملکی ذرائع ابلاغ کو مکمل طور پر (محدود) کر رہی ہے اور سابق سرکاری فوجیوں اور اہلکاروں کو مار رہی ہے، کو طاقت اور استحکام دینے کے لیے‘ مالی کردار ادا کر رہی ہیں۔

شجاع جو صدارتی محل میں دنیا کے ساتھ افغانستان کی سلامتی کے تعاون کے انچارج رہ چکے ہیں، نے کہا کہ ’اب طالبان انتظامیہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس کے پاس ڈاکٹروں، اساتذہ اور سرکاری ملازمین کو دینے کے لیے رقم نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت ہوا بازی کے شعبے سے جو پیسہ کمائے گی اس سے وہ اپنے سویلین کارکنوں کو تنخواہ نہیں دے گی بلکہ یہ رقم براہ راست طالبان کے نظام کو مضبوط بنانے اور تقویت دینے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔

لیکن افغان وزارت شہری ہوا بازی کے ترجمان احمدی کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان انتظامیہ کا مستقبل اور توقعات بہتری کی طرف جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’چھ ماہ میں ہمیں (طالبان انتظامیہ کو) توقع ہے کہ ہماری فضائی حدود میں 300  سے زیادہ پروازیں ہوں گی۔ انشاء اللہ ہم مزید سہولتیں فراہم کریں گے۔‘

(ایڈیٹنگ: جویریہ حنا | ترجمہ: علی رضا)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا