ایمنسٹی کا افغان طالبان سے گرفتار خواتین کی رہائی کا مطالبہ

گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کابل میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم کم از کم چار خواتین کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن طالبان حکومت اس سلسلے میں خاموش ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ایک سال مکمل ہونے سے چند روز قبل 13 اگست 2022 کو کابل میں افغان خواتین نے روزگار، انسانی حقوق اور روزگار کی آزادی کے حق میں مظاہرہ کیا تھا (اے ایف پی)  

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افغانستان میں عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی خواتین کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کابل کی نگران حکومت سے گرفتار شدگان کی جلد از جلد رہا ئی کی درخواست کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے طالبان حکومت سے یہ درخواست منگل کو ایک بیان کی شکل میں منظر عام پر آئی۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں افغان طالبان کی نگران حکومت نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم فرحت پوپلزئی، ظریفہ یعقوب، حمیرہ یوسف اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا ہے۔

تاہم گرفتاریوں کے دس دن بعد بھی کابل انتظامیہ نے کوئی تصدیق نہیں کی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد، نائب ترجمان بلال کریمی اور آحمد یوسف کو اس حوالے سے پیغامات بھیجے، تاہم اس خبر کے شائع ہونے تک ان کا موقف سامنے نہیں آیا۔  

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی عورتوں کو خواتین کے حقوق سے متعلق کابل میں پریس کانفرنس اور مظاہرے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ 

اسی پریس کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نام لیے بغیر مقامی میڈیا سے گفتگو میں الزام لگایا تھا کہ بعض خواتین بیرونی سازش کے تحت ’امارات اسلامی‘ کی حکومت کے خلاف بول رہی ہیں، جس کے ثبوت ان کے پاس موجود ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’افغان طالبان کی نگران حکومت بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تمام گرفتار خواتین کو غیر مشروط رہا کرے اور کابل میں اظہار رائے، پر امن مظاہروں اور احتجاج اور یونین سازی کے حقوق قدر کی جائے۔‘

بین الاقوامی ادارے کی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان نے چار نومبر کو انسانی حقوق کی کارکن ظریفہ یعقوبی اور ان کے ساتھیوں کو ایک پریس کانفرنس کے دوران’افغان وومن موومنٹ فار ایکویلٹی‘ کے نام سے غیر سرکاری تنظیم کے قیام کا اعلان کرنے پر گرفتار کر لیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا کہ اسی پریس کانفرنس کے دوران تقریبا 60 طالبان وہاں پہنچے وہاں موجود گرفتاریوں کے کے علاوہ خواتین کے موبائل سے ویڈیوز اور تصایور بھی ضائع کی گئیں۔ 

اسی حوالے سے پانچ نومبر کو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا سے گفتگو میں دعوی کیا کہ ان خواتین کو بیرونی عںاصر سے افغانستان میں مظاہرے کرنے اور طالبان حکومت کی مخالفت میں باہر آنے کو کہا گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں آٹھ نومبر کو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’افغان خواتین کی بے ساختہ تحریک‘ کی بانی فرحت پوپلزئی اور 13 نومبر کو حمیرہ یوسف کی گرفتاریوں کا ذکر بھی موجود ہے۔

کابل میں خواتین کارکنوں کی گرفتاریوں کی سوشل میڈیا پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ 

ٹوئٹر صارف ادریس لطفی نے لکھا: ’فرحت پوپلزئی کی گرفتاری کی بری خبر کے ساتھ جاگا، فرحت کو بغیر کسی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے خواتین کے پر پابندیوں کے خلاف بولتی ہیں۔‘

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین