افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر حال ہی میں لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نہ صرف مغربی ممالک نے اس فیصلے کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا بلکہ بعض مسلم ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، ترکی، ایران اور پاکستان شامل ہیں، نے بھی اس فیصلےکی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے عالمی برادری کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اعلان کی بنیادی وجوہات مرد اور خواتین کی مخلوط تعلیم اور خواتین کی اسلامی روح اور افغان تمدن کے منافی تعلیمات کی فراہمی تھا۔
افغان طالبان کے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ داخلی سطح پر بھی منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔ ملک کی مختلف درس گاہوں کے اندر نہ صرف طالبات بلکہ ان کے ساتھی طلبہ نے بھی اس فیصلے کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی ہے۔
کئی حلقوں کی جانب سے کئی اہم سوال اٹھائے گئے ہیں کہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنے کے نتیجے میں خواتین درس گاہوں کے لیے خواتین اساتدہ کہاں سے آئیں گی، خواتین کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹروں کی تربیت کا کیا نظام ہو گا اور خواتین معالج کی عدم موجودگی میں کیا خواتین کا علاج مرد ڈاکٹر کریں گے؟
دوسری جانب پاکستان میں دینی سیاسی جماعتوں جن میں سے کئی جماعتوں کے اپنے خواتین ونگز بھی موجود ہیں، کی جانب سے افغان انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف ابھی تک کوئی موثر یا مربوط ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی دینی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے بروقت کردار ادا کریں تاکہ خواتین کے بنیادی حقوق جن کی اسلام بھی ضمانت دیتا ہے، کی دین کے نام پر حق تلفی نہ ہو سکے۔
اس موقعے پر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ شدید معاشرتی پابندیوں اور تنگ نظر روایات کے باوجود افغان خواتین میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا شوق اور عزم کیونکر پیدا ہوا ہے؟
گذشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط جنگ کے نتیجے میں افغان خواتین میں یہ حوصلہ، خواہش اور شعورپروان چڑھا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھیں، اپنا مقام بنائیں، اپنے خاندان کی مالی ماونت کریں اور ضرورت پڑنے پر اپنی خودکفالت کر سکیں۔ انسانی تاریخ میں معاشرتی سطح پر جنگوں نے خواتین کی بیداری میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنگ عظیم دوم کی طوالت اور اس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے معاشی اور معاشرتی مسائل نے مغربی خواتین کو گھروں سے نکلنے اور روزگار کے مواقع تلاش کر نے پر مجبورکر دیا تھا۔
1980 کی دہائی کے دوران ایران عراق جنگ میں بھی مردوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، مالی مشکلات اور معاشرتی مسائل نے ایرانی خواتین کے شعور اور آگاہی پر اپنے گہرے نقوش مرتب کیے جو مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایرانی خواتین کی موجودہ جدوجہد کے پیچھے نمایاں طور پر کارفرما نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بالکل یہی معاشرتی عوامل افغان معاشرے کے انفرادی مزاج کے باوجود افغان خواتین کی موجودہ سوچ میں بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں جس سے افغان طالبان بجا طور پر خائف اور تشویش کا شکار تو ہیں البتہ طویل جنگ کی غیر یقینی صورت حال کے دوران پروان چڑھنے والی افغان نوجوان نسل اور تعلیم یافتہ اور پر اعتماد خواتین کے مطالبات اور عالمی برادری کی تواقعات پر پورا اترنا موجودہ کابل انتظامیہ کے لیے بہت دشوار ہو گا۔
پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکہ اور دیگر مغربی اداروں نے افغانستان میں تعلیمی نظام کے فروغ کے لیے مالی اور مادی امداد فراہم کی، البتہ مغربی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جہاں ایک جانب مغربی حلقوں کی جانب سے افغان طالبان کی قدامت پسندی اور تنگ نظری کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے وہیں ان اداروں کی افغانستان میں جدید نظام تعلیم اور خواتین کی ترقی کی جانب دلچسپی اور مالی معاونت میں خاصی کمی آئی ہے۔
جہاں ایک جانب عالمی برادری افغان طالبان سے کھلے ذہن اور معاشرتی ترقی کی توقع رکھتی ہے وہیں اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ افغان نوجوان نسل اور وہ خواتین جن کی ساری عمر جنگ کے تکلیف دہ اثرات کا سامنا کرنے میں گزری ہے، ان کی مالی، مادی اور اخلاقی امداد کو بدستور جاری رکھا جائے۔ اس کے نتیجے میں عالمی برادری کی مدد اور حوصلہ افزائی نہ صرف افغانستان کے معاشرتی ارتقا اور سماجی فلاح میں بہتری کے عمل کو جاری رکھنے کا موجب بنے گی بلکہ افغان طالبان کی سوچ پر ایک مثبت انداز میں اثر انداز بھی ہو سکے گی۔
اس کے نتیجے میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بالآخر وہ مسلح تنظیم سے ایک ذمہ دار حکومت بننے کا طویل اور دشوار سفر بھی بتدریج طے کر سکیں گے، اور یہ استعداد حاصل کر لیں گے کہ وہ نہ صرف اپنی نوجوان نسل اور خواتین کو بہتر مستقبل کے مواقع فراہم کر سکیں، اپنے معاشی مسائل میں کمی لانے کا موجب بن سکیں بلکہ دہشت گردی، علاقائی اور عالمی امن کو لاحق بڑھتے ہو ئے خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے بھی بہتر کردار ادا کر سکیں۔