’طالبان مخالف بیان ’نہ ختم ہونے والی جنگ‘ کی وجہ بن سکتے ہیں‘

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ فوجی آپریشن امن کے تصفیے کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اکیلے کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔

عمران خان نے 10 جنوری، 2023 کو براہ راست خطاب کے دوران وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ بیان پر تنقید کی (سکرین گریب / پی ٹی آئی یو ٹیوب)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے منگل کوافغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف اسلام آباد کی اتحادی حکومت کے ’غیر ذمہ دارانہ بیانات‘ پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ پڑوسی ملک سے تعلقات میں بگاڑ دہشت گردی کے خلاف ’کبھی نہ ختم ہونے والی‘ جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

آج اسلام آباد میں منعقد ہونے والے دہشت گردی کے بارے میں سیمینار سے ویڈیو لینک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق پی ٹی آئی حکومت پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ امن مذاکرات کی قیادت کرنے پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مخالفین کو ’لوگوں سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔‘

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ (ان کی حکومت میں) تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھ گئے تھے اور انہیں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی ضرورت اور ان کے ارکان کو دوبارہ آباد کرنے کے منصوبے سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا۔

’فوجی آپریشن مجموعی طور پر امن کے تصفیے کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن یہ خود کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ بیان پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر نئی افغان حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعاون بند کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ دہشت گردی کے خلاف ’کبھی نہ ختم ہونے والی‘ جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاک افغان سرحد پر حالیہ واقعات کو افغان حکومت کے ساتھ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟

’افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ ملک کے لیے لعنت کی شکل اختیار کر جائے گی۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران عسکریت پسندی نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے، بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے پیچھے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کا ہاتھ سمجھا جا رہا ہے۔

گذشتہ سال کے دوران ٹی ٹی پی نے پاکستان میں کئی حملے کیے، جن میں سے زیادہ اگست میں اسلام آباد اور گروپ کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد دیکھنے میں آئے۔

عمران خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کو احتیاط سے چلنے اور دہشت گردی کی مجموعی صورت حال کے بارے میں خیبر پختونخوا کے اِن پُٹ کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ سے مدد نہیں لینا چاہیے کیونکہ ڈرون حملے ہونے کی صورت میں مقامی لوگوں میں اندرونی انتشار پیدا ہو گا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا پولیس سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنے کی توقع رکھنا غلط ہے۔

’پولیس سے یہ توقع رکھنا کہ ان کے پاس جس قسم کے ہتھیار ہیں ان سے (دہشت گردوں) کا سامنا کرنا، ممکن نہیں۔

’کراچی میں رینجرز موجود ہیں اور وہاں دہشت گردی خیبر پختونخوا کی سطح پر نہیں۔‘

عمران خان نے کہا یہ خیال کرنا غلط ہو گا کہ خیبر پختونخوا پولیس ایسے دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، کم از کم اس وقت تک جب تک وفاقی حکومت اس معاملے پر پوری توجہ نہیں دیتی۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے اپنی گفتگو میں وفاقی حکومت پر خیبر پختونخوا میں قبائلی اضلاع کے لیے فنڈز روکنے، اور افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی آبادکاری پر توجہ نہ دینے کے الزامات لگائے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے فوراً بعد کا وقت ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرنے کا ایک ’سنہرا موقع‘ تھا۔

نئی افغان حکومت ’پاکستان کی حامی‘ تھی اور ٹی ٹی پی پر اثر ڈال سکتی تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں صرف ہم نہیں تمام سٹیک ہولڈرز شامل تھے۔‘

خیبر پختنخوا اراکین اسمبلی طالبان کو بھتہ دینے میں ملوث ہوئے تو اسمبلی چھوڑ دوں گا: وزیر اعلیٰ محمود خان

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے سیمینار سے خطاب کے دوران صوبے میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں تیزی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ایسے 374 واقعات پیش آئے۔

انہوں نے کہا خیبر پختونخوا کے غیر محفوظ رہنے کی صورت میں پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ فاٹا انضمام ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس سے قبل حالات کافی خراب تھے، 29 ہزار لیویز کو بھی ضم کرنا ایک بہت بڑا ٹاسک تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے سابقہ فاٹا کے 55 ارب روپے روک رکھے ہیں، جن میں سے محض پانچ ارب روپے ملے۔

’باقاعدگی سے فنڈز فراہم کرنے کی بجائے صوبے کو رقم تقسیم کر کے دی جا رہی ہیں۔‘

انہوں نے نام لیے بغیر سوال اٹھایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو نہ بلانا کیا آپریشن رجیم چینج کا حصہ ہے؟

’اگر خیبرپختونخوا پولیس اور سی ٹی ڈی کی کارکردگی خراب ہے تو پھر گذشتہ ساڑھے تین سال میں کارکردگی بہتر کیوں تھی؟‘

انہوں نے مزید سوال کیا کہ اگر آپریشن رجیم چینج کا مقصد عمران خان کو ہٹانا تھا تو پھر یہ دہشت گردی کس کے حصے میں آئی؟

وزیراعلیٰ پختونخوا نے طالبان کو بھتہ دینے سے متعلق اٹھنے والے سوالات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ارکان اسمبلی طالبان کو بھتے دینے میں ملوث پائے گئے تو وہ اسمبلی چھوڑ دیں گے۔

(ایڈیتنگ: عبداللہ جان)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان