پاکستان میں دہشت گردی دوبارہ کیوں سر اٹھا رہی ہے؟

شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی مہلکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔

پولیس اہلکار 23 دسمبر 2022 کو اسلام آباد میں خودکش دھماکے کے بعد (اے ایف پی)

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور دو قلیل المدتی لیکن غیر منافع بخش جنگ بندی کے معاہدوں کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے  دوبارہ سر اٹھانے میں کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی طالبان کی حمایت کرنے والی افغان پالیسی ہے جس کی وجہ سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئے۔

پاکستان نے کابل میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف طالبان کی حمایت کی تاکہ ہندوستان کو قابو کرتے ہوئے طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کو لگام ڈالی جائے۔ تاہم طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر منایا۔

ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے جنگی، سیاسی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت نے پاکستان کو کوئی مدد دینے کی بجائے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ طالبان نے صرف سہولت کاری کی پیشکش کی بشرطیکہ اپنے اختلافات کو میز پر حل کرنے اور سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے پاکستان اور ٹی ٹی پی دونوں متفق ہوں۔

کمزور پوزیشن لیتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کے امن مذاکرات نے بھی عسکریت پسند گروپ کو پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو بحال کرنے اور پھیلانے میں مدد کی ہے۔ 28 نومبر کو ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کر دی اور اپنے جنگجوؤں کو پاکستان بھر میں حملے دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت کی۔

پاکستان کی اعلیٰ انسدادِ دہشت گردی ایجنسی، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امن مذاکرات نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھے امن معاہدے  ناکام رہے ہیں اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح 2015-2020 کے عرصے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کے کمزور ہونے اور افغانستان پاکستان سرحد پر باڑ لگانے کی وجہ سے تشدد کی عدم موجودگی نے فتح کا غلط تصور پیدا کیا۔

پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضائع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیر کیا۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے سے ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں اور افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔

شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی مہلکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔

2020 کے بعد سے ٹی ٹی پی نے اپنے نئے سربراہ نور ولی محسود کی قیادت میں مختلف الگ الگ دھڑوں کو دوبارہ متحد کرنے پر بھرپور توجہ دی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں 22 سے زیادہ عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

مزید برآں ٹی ٹی پی کے خلاف فتح کے بے بنیاد احساس اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے مرکزی محاذ، صوبہ خیبر پختونخوا میں ناکافی انسداد دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے سے پیدا ہونے والی خوش فہمی بھی عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے کا سبب بن رہی ہے۔

پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں خیبرپختونخوا کی سی ٹی ڈی میں صلاحیت کے سنگین مسائل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

طالبان کی واپسی کے بعد سے خیبر پختونخوا کی پولیس، بشمول سی ٹی ڈی، نے ٹی ٹی پی کے حملوں کا خمیازہ اٹھایا اور 83 دہشت گرد حملوں میں 120 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کی افرادی قوت کم تربیت یافتہ، وسائل سے محروم اور ناقص طور پر لیس ہے۔

مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کا سی ٹی ڈی اپنے بجٹ کا چار فیصد سے بھی کم آپریشن پر خرچ کرتا ہے جبکہ خریداری کے لیے مختص بجٹ صفر ہے۔ اسی طرح سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کا 2.18 ارب روپے کا بجٹ جس میں تنخواہیں اور الاؤنسز شامل ہیں، پنجاب سی ٹی ڈی کے 4.7 ارب روپے کے نصف کے برابر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ مہینوں میں پاکستان اور طالبان کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں  سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جب افغانستان میں بین الاقوامی عسکریت پسندی کے بقایا خطرے کے خلاف امریکہ اور پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔

حال ہی میں امریکہ نے ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ قاری امجد کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ محمود اور ان کے نائب عاطف یحییٰ غوری کو عالمی دہشت گردوں کی اپنی نامزد فہرست میں شامل کیا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری پاکستان کی غیر مستحکم سکیورٹی صورت حال کے تناظر میں پہلے سے ہی غیر تسلی بخش طالبان پاکستان تعلقات پر منفی اثر ڈالے گی۔

افغانستان میں پاکستان کے تضادات دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب پاکستان انڈیا کے خلاف افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ تلاش کر رہا تھا، طالبان کے زیرِ حکومت افغانستان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں ریورس سٹریٹیجک ڈیپتھ فراہم کر دی ہے۔

پاکستان کی افغان پالیسی پر نظرثانی کیے بغیر، صرف دہشت گردی کے خلاف ایک نئی مہم سے پاکستان کی دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مزید برآں پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کے بارے میں طویل نظریہ رکھنا ہو گا کیونکہ اس کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔

پاکستانی ردعمل سے قطع نظر، پاکستان میں دہشت گردی کے خطرے میں بہتری یا بگاڑ کا انحصار افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال پر ہوگا۔


مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر