آنکھ کے بدلے آنکھ: افغانستان میں شرعی نظام انصاف نافذ

غزنی کی عدالت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت اور آج کے نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

مشرقی افغانستان میں غزنی کورٹ آف اپیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں پگڑی والے جج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والا ایک معمر شخص اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔

75 سالہ شخص نے غیرت اور بدلہ لینے کے لیے اپنے ایک رشتہ دار کو گولی مار کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ افواہیں تھیں کہ مقتول کے اس کی بہو کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔

طالبان کے سپریم لیڈر نے گذشتہ ماہ پہلی بار باضابطہ طور پر ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ والے شرعی قوانین کے تحت سزاؤں پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔ اس معمر شخص کو بھی اسی قانون کے تحت سرعام سزائے موت دی جائے گی اور یہ سزا مقتول کا ایک رشتہ دار انجام دے گا۔

معمر شخص نے عدالت سے التجا کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے خاندانوں کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ میرے پاس ایسے گواہ ہیں جو ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم نے دیت پر اتفاق کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے غزنی کی اس عدالت تک رسائی حاصل کی اور مشاہدہ کیا کہ گذشتہ سال اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے شرعی انصاف کیسے چلایا جا رہا ہے۔

2001 میں طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد امریکہ کی حمایت یافتہ ’جمہوری‘ حکومت کے دوران استغاثہ، دفاعی وکلا اور ججوں کے ساتھ ایک نئے عدالتی نظام کی تشکیل پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے جو اسلامی اور سیکیولر قانون کا امتزاج تھا۔

بہت سی خواتین کو اس نئے عدالتی نظام میں شامل کیا گیا جو کٹر طالبان عسکریت پسندوں کے مقدمات کی سماعت کے ساتھ ساتھ فیملی کورٹس میں صنفی توازن کو مزید بہتر بنا رہی تھیں۔

لیکن طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ نظام انصاف ختم ہو گیا اور تمام مقدمات، عدالتی کارروئیاں اور سزائیں اب تمام مرد علما کی نگرانی میں دے دی گئی ہیں۔

افغانستان میں طالبان علما شریعت کی ایک انتہائی سخت تشریح پر عمل پیرا ہیں جس میں سزائے موت اور جسمانی سزائیں بھی شامل ہیں جو اب تقریباً تمام مسلم ممالک میں متروک ہو چکی ہیں۔

غزنی کی عدالت کے سربراہ محی الدین عمری نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت اور آج کے نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا