اقوام متحدہ کی طالبان کے جھنڈے کے سامنے اہلکاروں کی تصویر پر معافی

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش کے ترجمان فرحان حق نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ ’وہ تصویر کبھی نہیں لی جانی چاہیے تھی۔ اس سے صورت حال کو سمجھنے میں واضح طور پر بڑی غلطی ظاہر ہوتی ہے۔

اس تصویر پر اقوام متحدہ نے طالبان سے معافی مانگی ہے جس میں عالمی ادارے کے اہلکار طالبان کے پرچم کے سامنے کھڑے ہیں جن پر مسلمانوں کا کلمہ تحریر ہے (تصویر: میثم نظری ٹوئٹر)

مسائل میں گھرے افغانستان میں خاتون امدادی کارکنوں پر پابندی کو مسئلے کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کے وفد کے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے عملے کے بعض ارکان کی طالبان کے جھنڈے کے ساتھ تصویر پرعالمی ادارے نے ’صورت حال کو سمجھنے میں بڑی غلطی‘ پر معذرت کر لی ہے۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکریٹری جنرل اور صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیما باہوس اور سیاسی امور کے معاون سیکریٹری جنرل خالد خیاری نے حقیقی طالبان حکام سے ملاقات کی اور افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جمعے کو نیشنل ریزسسٹن فرنٹ آف افغانستان (این ایف آر) کے شعبہ عالمی تعلقات کے سربراہ علی میثم نظری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’کابل میں اقوام متحدہ کے عملے کی دہشت گرد گروپ کے ساتھ تصویر لینے سے اقوام متحدہ کی غیر جانبداری اور دیانت داری پر سوال پیدا ہو گیا ہے۔ ہم انتونیو گوتیریش سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں اور یو این اے ایم اے نیوز لاپروائی پر مبنی ایسے اقدامات کو روکے جن کی اس کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے۔‘

اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد افراد نے غصہ کا اظہار کیا جس کے بعد اقوام متحدہ کو معذرت کرنی پڑی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش کے ترجمان فرحان حق نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ ’وہ تصویر کبھی نہیں لی جانی چاہیے تھی۔ اس سے صورت حال کو سمجھنے میں واضح طور پر بڑی غلطی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ غلطی تھی اور ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اور اس سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ ان افسروں کے سپروائزر نے اس معاملے پر ان سے بات کی ہے۔‘

اقوام متحدہ میں اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات خاتون امینہ محمد افغانستان کے طالبان کی طرف سے خواتین کے حقوق کی حالیہ خلاف ورزی پر کے پیش نظر منگل کو کابل پہنچی تھیں۔

اقوام متحدہ کے حکام نے ’خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، بقائے باہمی اور پائیدار ترقی کے فروغ اور تحفظ کے مقصد سے افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے‘ خلیج، ایشیا اور یورپ میں اعلیٰ سطح پر مشاورت کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے وفد کے ارکان نے اسلامی کانفرنس کی 57 رکنی تنظیم کے رہنماؤں، اسلامی ترقیاتی بینک، انقرہ، ترکی اور اسلام آباد میں افغان خواتین کے گروپوں اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مقیم افغانستان کے لیے سفیروں اور خصوصی مندوبین کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔

امینہ محمد نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر اعلیٰ طالبان  حکام جن سے ان کی افغانستان کے دورے میں ملاقات ہوئی ’لڑکیوں اور خواتین  کے حقوق پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

محمد نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ایسی بہت سی آوازیں ہیں جو ہم نے سنی ہیں جو اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں جس طرف ہم جانا چاہیں گے۔‘ ’لیکن اور لوگ بھی ہیں جو حقیقت میں نہیں ہیں۔‘

طالبان نے 24 دسمبر کو حکم جاری کرتے ہوئے امدادی تنظیموں کے خواتین کو ملازمت دینے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے لاکھوں افغان شہریوں کو زندہ رہنے میں مدد دینے والے یہ تنظیمیں مفلوج ہو کر رہ گئیں اور ملک بھر میں امدادی سرگرمیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ پابندی کے نتیجے میں ان خواتین کو آمدن سے محرومی کا سامنا ہے جو ملک بھر میں ان تنظیموں کے لیے کام کرتی ہیں۔ خاندان کی گزر بسر کے لیے انہیں اس آمدن کی شدید ضرورت ہے۔

قبل ازیں طالبان نے ثانوی سکولوں میں لڑکیوں اور خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگائی۔ خواتین کے بیرون ملک سفر اور اندرون ملک ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔

افغانستان سے 20 سال بعد امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اگست 2021 میں طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا۔ جیسا کہ انہوں اس وقت کیا جب انہوں نے پہلی بار 1996 سے 2001 تک ملک میں حکومت کی، عسکریت پسند گروپ نے آہستہ آہستہ اسلامی قانون، یا شریعت کو دوبارہ نافذ کیا۔ خواتین کو سکولوں، ملازمتوں اور امدادی کاموں سے باہر نکال کر انہیں زیادہ تر گھر تک محدود کر دیا۔

(اضافی رپورٹنگ، ایسوسی ایٹڈ پریس)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا