افغان طالبان اور اخوان المسلمین میں قربتیں

اخوان المسلمین اور طالبان گروپ کے رہنماؤں کے درمیان رابطے شروع ہوئے اور دونوں اطراف کے اعلیٰ سطحی وفود نے ترکی اور افغانستان کا سفر کیا۔

15 دسمبر 2022 کو طالبان سکیورٹی اہلکار برمل صوبے میں (اے ایف پی فائل فوٹو)

نام نہاد ’عرب بہار‘ نے کئی عرب ممالک میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور تشدد کو جنم دیا اور مصر، یمن، لیبیا، تیونس اور الجزائر کی حکومتوں کے زوال کا باعث بنی، لیکن یہ تحریک اخوان المسلمین کے احیا اور مصر اور تیونس سمیت بعض عرب ممالک میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافے کا سبب بنی ہے۔

اخوان المسلمین اور اس تنظیم سے وابستہ دیگر گروہوں کے رہنماؤں نے، جو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہے تھے، اس ترقی اور فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہر جگہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس طرح آزادی پسند اقوام اور سیاسی اسلامی تنظیموں کے درمیان کشمکش شدت اختیار کر گئی۔

یہی وجہ ہے کہ مصر کے عوام اخوان المسلمین کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ محمد مرسی کی قیادت میں تشکیل کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس طرح مصر کئی ممالک کے تعاون سے خود کو انتہا پسندی کی دلدل سے بچانے میں کامیاب ہو گیا۔

اس کے بعد تیونس نے، جو عوامی آزادی پسندوں کے مظاہروں اور زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد النہضہ اسلامسٹ پارٹی کے کنٹرول میں تھا، انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی تاکہ ملک کو ایک بار پھر جمہوریت اور آزادی کی طرف منتقل کیا جا سکے، جو اکثر لوگوں کی خواہش ہے۔

اخوان المسلمین کی شکست اور مصر اور تیونس میں اس کے نوزائیدہ اڈوں کے خاتمے نے اس تنظیم کو شدید دھچکہ پہنچایا اور اس سے منسلک گروہوں کو ہر جگہ سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت گزرنے اور خطے کے مختلف ممالک میں شدت پسندی کے خلاف جنگ کے تسلسل کی وجہ سے اخوان المسلمین سے وابستہ گروپوں کے رہنماؤں کے لیے میدان تنگ ہو گیا ہے۔ تاہم اس تنظیم کے کئی رہنما ترکی اور قطر گئے اور وہاں سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کیں۔

اگرچہ خطے کے ممالک نے ترکی میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کی سرگرمیوں کے خطرے کے بارے میں متعدد بار خبردار کیا تھا اور ان دھمکی آمیز سرگرمیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ترک حکومت نے ان انتباہات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ آخر کار سکیورٹی رسک کو محسوس کرنے کے بعد اس نے ان کی نقل و حرکت پر بہت سی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی خلیج عرب کے ممالک اور مصر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی۔

یقیناً انقرہ اور قاہرہ کے تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہوئے جب ترکی نے مصر اور خطے کے دیگر کئی عرب ممالک کی خواہشات کے برعکس اخوان المسلمین کے مفرور رہنماؤں کو ترکی میں پناہ دی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کو روکا نہیں۔

ترکی کی اخوان المسلمین کے ساتھ نمٹنے کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد اس تنظیم کے قائدین، جنہوں نے خود کو بہت سی پابندیوں میں گھرا ہوا پایا تھا، ایک اور راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہو۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس ملک میں ایسے گروہوں کی واپسی کا میدان تیار ہو گیا۔ اخوان المسلمین کے رہنماؤں نے، جو مایوسی کے عروج پر تھے، افغانستان کو اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا بہترین آپشن پایا اور طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بڑی عجلت میں کام کیا گیا۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اخوان المسلمین اور طالبان گروپ کے رہنماؤں کے درمیان رابطے شروع ہوئے اور دونوں اطراف کے اعلیٰ سطحی وفود نے ترکی اور افغانستان کا سفر کیا۔ دوسروں کے علاوہ، ہم اس گروپ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی سربراہی میں طالبان کے وفد کے ترکی کے دورے اور ترکی، فلسطین اور سوڈان سے اخوان المسلمین کے رہنماؤں کے متعدد دوروں کا ذکر کر سکتے ہیں۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اخوان المسلمین تنظیم کا افغانستان میں گذشتہ چار دہائیوں کے دوران مختلف جہادی اور بنیاد پرست گروہوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے اور دونوں جماعتوں نے علاقائی اور ماورائے علاقائی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحان کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان المسلمین اور مکتب دیوبند سے وابستہ انتہا پسند گروہوں کے درمیان اتحاد ہی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے ابھرنے کی بنیادی وجہ تھا۔ بہت سے ماہرین کے مطابق القاعدہ اور داعش اسی فکری الجھن سے ابھرے ہیں۔

اب ایسا لگتا ہے کہ اخوان المسلمین اور طالبان (دیوبند مکتبہ فکر سے وابستہ انتہا پسند گروہ) ایک بار پھر اکٹھے ہونے اور تعاون کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں اس وقت طالبان کی حکومت ہے۔

’بورڈ آف سکالرز اینڈ کلرکس‘ کے نام سے اخوان المسلمین کے رہنماؤں کا حالیہ دورہ افغانستان اور قندھار نیز کابل میں طالبان رہنماؤں سے متعدد ملاقاتیں اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف اپنے موجودہ مسائل کے علاوہ ایک اور نئے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس لیے دنیا کو اخوان اور طالبان کے درمیان قربت اور صف بندی کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس سے فیصلہ کن انداز میں نمٹنا چاہیے تاکہ اس خطرے کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

اخوان اور طالبان کے وژن اور دوروں اور ان کے درمیان جو ہم آہنگی پیدا ہو رہی ہے اسے کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے پر اخوان المسلمین کے رہنماؤں کی خوشی اور ان کی کارکردگی کو سراہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں گروہ اتحاد اور تعاون کی راہ پر گامزن ہیں۔

ورلڈ یونین آف مسلم سکالرز کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر علی محی الدین قرادغی نے اس ادارے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام شائع کیا، جس میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہونے والی پیش رفت کے بارے میں امید کا اظہار کیا گیا اور امریکی انخلا پر انہیں مبارک باد دی۔ اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا کہ اگر اسلامی حکومت (طالبان) جو کہ خدائی عدل کی حکومت کی مثال ہے ناکام ہو جاتی ہے تو یہ بہت بڑا نقصان ہو گا، اور یہ کفار کو یہ دعویٰ کرنے کا بہانہ دے گا کہ مسلمان نہ حکومتی نظام قائم کر سکتے ہیں نہ حکومت چلا سکتے ہیں۔

درحقیقت اخوان المسلمین کے رہنما مختلف علاقائی اور بین الاقوامی حلقوں میں لابنگ کرتے ہوئے دنیا کو طالبان حکومت کی حمایت اور تسلیم کرنے کے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ طالبان حکومت کو تنہا ہونے اور گرنے سے روکا جا سکے۔ اس مقصد کا حصول اخوان کو طالبان حکومت کے سائے میں سرگرمیاں منظم کرنے اور ان مقاصد اور نظریات کو حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ کالم پہلے انڈپینڈنٹ پرشین پر فارسی زبان میں شائع ہوا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر