شدت پسندوں کا دوبارہ ابھرنا، پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

حالیہ دنوں میں افغانستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے شدت پسندی کے واقعات کو آپس میں جوڑ کر دیکھا جائے تو معاملے کی حساسیت کھل کر سامنے آتی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

27 جنوری 2017 کو پاکستانی فوج کے اہلکار شمالی وزیرستان میں تعینات ہیں (اے ایف پی/فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں مسلح شدت پسندوں کے اچانک نمودار ہونے کے ساتھ ہی سازشی مفروضوں کی بھرمار شروع ہو گئی ہے۔ سب جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟

کیا اس کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے جو پی ٹی آئی کو آئندہ الیکشن میں ہرانے اور مذہبی پارٹیوں کو آگے لانے کے لیے ’طالبان 3.0‘ کے ذریعے حالات خراب کرنا چاہ رہی ہے یا یہ پہلے سے شدید تنقید کی زد میں آئی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کو مزید کمزور کرنے کی عالمی سازش کی پہلی قسط ہے؟

حقائق کی دائمی کمی میں کسی فیصلے پر پہنچنا بہت مشکل ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ افغانستان میں گذشتہ چند ہفتوں کے حالات و واقعات یہ واضح کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں نے وہاں ایک نیا میدان سجا لیا ہے، جس سے نہ صرف اس ملک بلکہ پاکستان کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔

افغانستان میں طالبان مقبول نہیں اور پاکستان میں یہاں کے ریاستی ادارے عالمی طاقتوں کے منظور نظر نہیں رہے۔ دونوں کو مقامی حالات کو جواز بنا کر مزید کمزور کرنے کی بظاہر ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔

تاہم  اسٹیبلشمنٹ سے شدید ناراض پاکستان تحریک انصاف ان حالات کو اپنے انداز سے دیکھ رہی ہے۔ تحریک کے سربراہ عمران خان کو اس سے سازش کی بو آ رہی ہے جس کی وضاحت ان کی جماعت کے رکن رؤف حسن نے ایک مضمون میں کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’کے پی میں طالبان جنگجوؤں کی دراندازی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ وہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کے پی حکومت کی طاقت کی قیمت کے بدلے ڈکٹیٹ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

’وہ کس طرح آتے ہیں اور ان کے ڈرائیور کون ہیں، وہ ایک بار پھر کیسے ان علاقوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں سے انہیں طویل عرصے قبل بےدخل کیا گیا تھا، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ سب اسی مذموم منصوبے کا حصہ ہے تاکہ پی ٹی آئی حکومتوں کو کمزور کر کے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے متعدد سمتوں سے دباؤ بڑھایا جائے۔‘

جب کوئی طوفان آتا ہے تو سب اپنی عینک سے اسے دیکھتے ہیں، لیکن تھوڑا زمینی حقائق اور ان ہی کی حکومت کے ترجمان کی باتوں کا جائزہ لے لیتے ہیں۔

پہلے افغانستان جہاں بظاہر موجودگی نہ ہونے کے باوجود، امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے القاعدہ کے ایک بڑے ہدف ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہی۔ طالبان کا لاعلمی کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن یہ ان کے لیے ایک شدید بدنامی ہے۔

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ شاید انہوں نے اس حملے میں امریکہ کی مدد کی ہو تاکہ ان سے انتہائی ضروری 40 کروڑ ڈالر مل سکیں۔ اس واقعے سے ڈاکٹر ایمن الظواہری کی موجودگی تو ثابت ہوئی یا نہیں لیکن سی آئی اے کی موجودگی ضرور ثابت ہوئی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے حکومت سے مذاکرات کے مخالف اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی کی بم حملے میں ہلاکت بھی ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ادھر کابل میں انڈیا کے سفارت خانے کے اس سال جون خاموشی سے کھلنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان غالباً پہلی مرتبہ مذاکرات کے نتیجے میں اتنی طویل جنگ بندی دیکھی جا رہی ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد اگر طالبان کو سستانے کا موقع دینا نہیں تو شاید ہی پاکستان میں کوئی ان کا مخالف ہو۔ اگر شدت پسند اسلحہ ڈال کر پرامن شہری بننا چاہتے ہیں تو کسی کو اس سے انکار نہیں ہو گا، لیکن اگر کوئی اس پیش رفت سے خوش نہیں ہو گا تو وہ پاکستان کے دشمن ہی ہیں۔ وہ کیوں پاکستان کو پرامن بننے دیں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بعض نامعلوم مسلح افراد کی اطلاعات ضرور ہیں، تاہم ان واقعات میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی گروپ سے حکومت کے مذاکرات جاری ہیں اور دونوں میں اب بھی جنگ بندی پر اتفاق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے یا سازشی مفروضے کو ہوا دینے اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے مشترکہ دشمن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

کسی بھی طویل لڑائی کے بعد اس کے خاتمے کے لیے جب بھی مذاکرات ہوئے تو متحارب گروپوں میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو اس عمل کے حامی نہیں ہوتے۔ ایسے ناقدین پاکستان میں بھی ہیں اور طالبان کی جانب بھی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مذاکرات کے مخالف حافظ گل بہادر گروپ نے قبائلی اضلاع میں ’اتحاد مسلح اسلامی مجاہدین‘ کے نام سے ایک نئی علیحدہ تنظیم قائم کر دی ہے۔ پھر ٹی ٹی پی کے اندر چھوٹے چھوٹے امام وغیرہ نامی گروپوں کی کمی نہیں۔

حکام نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اس تنظیم نے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ہونے والے بعض واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ ویب سائٹ ’ودان نیوز‘ کے مطابق اس تنظیم نے ضلع خیبر میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر گل آفریدی کو ہلاک کرنے اور نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں پولیس گاڑی میں دو پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر زخمی کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پشاور میں سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار رفعت اورکزئی نے ودان نیوز کو بتایا کہ اس تنظیم کے وجود میں کوئی شک نہیں ہے، ان کے پاس خود کش حملہ آور بھی ہیں۔ ’اگر چہ تنظیم ٹی ٹی پی کی طرح کوئی بہت بڑی تنظیم نہیں ہے، تاہم سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی مذاکرات کی کوشش کی گئی تھی تاہم یہ ابتدا ہی میں کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئے۔‘

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی قومی اسمبلی میں گذشتہ روز واضح طور پر مسئلے کی حساسیت کا اعتراف کیا۔ اب سیاست دانوں، ریاستی اداروں اور عوام کو مل کر، ایک دوسرے کو کھل کر تمام صورت حال واضح کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے 2001 کے بعد ہزاروں جانیں کھوئی ہیں، اب مزید نہیں رو سکتے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ