شدت پسند حملوں میں اضافہ، پاکستان کے لیے خطرات کیا؟

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کی گئی معلومات کے مطابق اس سال اگست، ستمبر اور اکتوبر میں ہونے والے انٹیلیجنس آپریشنز اور شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان فوج کے 31 سپاہی بشمول ایک افسر جان کھو چکے ہیں۔

پچھلے تین ماہ میں ہونے والے23 دہشت گرد حملوں اور سی ٹی ڈی کی کارروائیوں میں پاکستان پولیس کو بھی کافی جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا ہے (اے ایف پی/فائل)

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور 15 اگست 2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں ایک مرتبہ پھر بظاہر زیادہ متحرک ہوئی ہیں، جس کے بعد خیبر پختونخوا سمیت بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کے خلاف حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کی گئی معلومات کے مطابق اس سال اگست، ستمبر اور اکتوبر میں ہونے والے انٹیلیجنس آپریشنز اور شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان فوج کے 31 سپاہی بشمول ایک افسر جان کھو چکے ہیں۔

پچھلے تین ماہ میں ہونے والے23 دہشت گرد حملوں اور سی ٹی ڈی کی کارروائیوں میں پاکستان پولیس کو بھی کافی جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان حملوں میں 17 پاکستانی پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان اور خطے کی امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) ایاز خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں بگڑتے حالات کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن میں سب سے نمایاں افغانستان میں پیش آنے والےحالات و واقعات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا خدشہ پاکستانی سویلین قیادت اپنے بیانات میں واضح کر چکی ہے۔ ان کا اشارہ وزیراعظم عمران خان کا 24 ستمبر کوایک غیرملکی جریدے کو دیے گئےحالیہ انٹرویو کی طرف تھا، جس میں انہوں نے افغانستان کی جانب سے پاکستان کے لیے دہشت گردی کے خطرات کو سخت تشویش کا باعث قرار دیا تھا۔

تین ماہ کا جائزہ

پاکستانی میڈیا اور سکیورٹی حکام کی خبروں کے مطابق پچھلے تین ماہ میں پیش آنے والے کل 67 واقعات کے نتیجے میں 15 انٹیلیجنس آپریشنز اور 10 سی ٹی ڈی (کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) آپریشنز کے نتیجے میں کل 106 شدت پسند ہلاک کیے جاچکے ہیں۔

حالیہ واقعات سے صوبہ خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر رہا ہے اور اگست سے اب تک کل 67 کارروائیوں اور حملوں کے واقعات میں سے 42 خیبر پختونخوا میں پیش آئے، جن میں 11 پولیس، چھ ایف سی، ایک لیویز اور 31 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسرے نمبر پر متاثرہ صوبہ بلوچستان رہا جہاں سے پچھلے تین ماہ میں 18 حملوں اور کارروائیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ نتیجتاً 55 شدت پسند مارے گئے، جب کہ چھ پولیس، 11 فرنٹیر کور اور چار فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔

 پچھلے تین ماہ میں پیش آنے والے تین بڑے واقعات میں سے ایک بلوچستان کے ضلع مستونگ سے رپورٹ ہوا تھا جس میں سی ٹی ڈی کی کارروائی میں داعش کے 11 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری بڑی کارروائی 28 ستمبر کو شمالی وزیرستان میں کی گئی تھی جس میں بشمول چار کمانڈر دس شدت پسند ہلاک کیے گئے تھے۔

دہشت گردی کے خلاف  تیسرابڑا واقعہ 15 ستمبر کو رپورٹ ہوا تھا جب شمالی وزیرستان میں انٹیلیجنس آپریشن کے نتیجے میں  سات فوجی اہلکار اور پانچ شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔

رجحانات

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹیڈیز کے سربراہ اور شدت پسند رجحانات پر نظر رکھنے والے عامر رانا کا کہنا ہے کہ افغان صورت حال کے پاکستان پر عدم تحفظ اور عسکریت پسندی، سرحد پار دہشت گردی، پناہ گزینوں کی آمد اور معاشی عدم استحکام کے حوالے سے متعدد مضمرات ہوں گے۔ ’اگرچہ پاکستان کو یقین ہے کہ وہ سکیورٹی اور تشدد کے حوالے سے افغان تنازع کے ممکنہ نتائج سے نمٹ سکتا ہے، لیکن ایک غیرمستحکم اور تشدد کا شکار افغانستان یقینی طور پر پاکستان میں پرتشدد بنیاد پرست اور انتہا پسندانہ بیانیے اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرے گا، جن سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔‘

ایاز خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کی جانب سے جون میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں اس وقت 2500 سے لے کر 6000 تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو موجود ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان جیلوں سے ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے افراد جن میں باجوڑ کے مولوی فقیر محمد بھی شامل ہیں، رہا کیے جا چکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ان میں بیشتر واپس طالبان کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کو شک ہے کہ یہی لوگ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ ہوسکتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار ایاز خان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو ملنے والی حالیہ افرادی قوت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے طالبان کو عام معافی کے بیان کو طالبان نے ٹھکرا دیا تھا اور کہا تھا کہ ’معافی ان لوگوں کو دی جاتی ہے جنہوں نے کوئی جرم کیا ہو۔‘

عامر رانا کا کہنا ہے کہ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ اب پاکستان میں عسکریت پسندی کے اعتبار سے صورت حال بالکل مختلف ہے کیونکہ ریاست نے غیرحکومتی طاقتوں کو ختم کر دیا ہے اور فرقہ وارانہ گروہ کنٹرول میں ہیں۔ ’لیکن جو بات نوٹ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی طبقات میں بنیاد پرست اور انتہا پسندانہ رجحانات برقرار ہیں۔ کچھ گروہ کمزور ہو چکے ہوں گے لیکن ان کا نظریہ اب بھی معاشرے میں زہریلے بیانیے کو پروان چڑھا رہا ہے۔‘

بریگیڈئیر ایاز کے مطابق2001 میں افغانستان پر امریکی قبضے میں اور 2021 میں انخلا کے دوران پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر ایسے عناصر کا سدباب کریں۔ ’لیکن دہشت گردی کے خلاف کمزور پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا، اوراس کا خمیازہ جانی ومالی صورت میں آنے والےدنوں میں پاکستان کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان