قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں پیر کی رات فوجی قافلے پر ایک خود کش حملے میں چار سکیورٹی اہلکار جان سے گئے۔
پاکستان فوج کے ترجمان محکمے آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں بتایا کہ 'شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں فوجی قافلے پر خودکش حملہ ہوا، جس میں چار سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔
’ان میں مانسہرہ کے لانس نائیک شاہ زیب (عمر 22 سال)، غزر کے لانس نائیک سجاد (عمر 26 سال)، کوہاٹ کے سپاہی عمیر (عمر 25 سال) اور نارووال کے سپاہی خرم (عمر 30 سال) شامل ہیں۔‘
بیان کے مطابق ’انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خودکش حملہ آور اور اس کے ہینڈلرز/ سہولت کاروں کو پکڑنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔‘
نامہ نگار مونا خان کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس مئی میں شمالی وزیرستان میں ایک فوجی قافلے پر حملے میں تین سکیورٹی اہلکار جبکہ اپریل میں ایک ایسے ہی واقعے میں سات اہلکار جان سے گئے تھے۔
اس واقعے سے متعلق آئی ایس پی آر کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ حملے کے وقت سکیورٹی اہلکاروں نے جوابی کارروائی میں چار شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیرستان میں فوج پر حملوں کے علاوہ سوات میں گذشتہ دنوں پولیس پر حملے کے بعد خدشات سامنے آ رہے ہیں کہ عسکریت پسند بتدریج طاقت میں آ رہے ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق سوات میں پیر کو وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی علاقے کے قریب مٹہ میں ’پولیس کے ساتھ جھڑپ میں عسکریت پسندوں نے ڈی ایس پی پیر سید سمیت چار سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا، جنھیں بعد میں رہا کرا لیا گیا۔
مقامی جرگے کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی جرگے اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ہوئی۔
مقامے جرگے کا کہنا تھا کہ بات چیت کے بعد یرغمالیوں کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔
پشاور سے نامہ نگار انیلا خالد نے بتایا صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مٹہ کے علاقہ چپریال کے پولیس سٹیشن پر نامعلوم نقاب پوشوں کے حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
اس واقعے میں پولیس کی جوابی کارروائی کے بعد نامعلوم نقاب پوش فرار ہوگئے، حملے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
ایس ایچ او چپریال پولیس سٹیشن طارق خان کے مطابق نامعلوم مسلح حملہ آوروں کی تعداد چار سے پانچ تک تھی۔
پولیس سٹیشن کے محرر عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تقریباً پانچ نامعلوم افراد تھانہ حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ڈیوٹی پر موجود سپاہی نے دوسرے اہلکاروں کو مطلع کیا جس پر جوابی کارروائی کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے۔‘
سوات کے صحافی عدنان باچہ کے مطابق وادی میں 13 سال بعد کسی پولیس سٹیشن پر حملے کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔
اسی طرح پچھلے کئی ماہ سے ضلع باجوڑ کے مکین کہہ رہے ہیں کہ ان کے علاقے میں حالات دوبارہ خراب ہو گئے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چوری ڈکیتی، وغیرہ جیسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر دیر بالا میں آٹھ اگست کو فارسٹ آفیسر سردار صالح نے بنام تھانہ شرینگل لکھا کہ ان کے واٹس ایپ نمبر پر 21 جولائی کو مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے سیف الاسلام نے وائس میسج بھیج کر کہا کہ ’آپ نے محکمہ فارسٹ کے چار کروڑ روپے کی لکڑی فروخت کی ہے جس میں 60 فیصد قوم کا حصہ ہے وہ تحریک طالبان کے حوالے کریں ورنہ انجام کے لیے تیار ہو جائیں۔”
متذکرہ آفیسر کے مطابق چونکہ تھانہ شرینگل اس رابطہ نمبر کو ٹریس نہ کرسکے لہٰذا یہ کیس کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کبل کو ریفر کر دیا گیا۔
مالاکنڈ میں دہشت گردی سے متعلق کیسز دیکھنے والے محکمے سی ٹی ڈی، کبل کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بھتے کے کیسز پر کھل کر بات نہیں کر سکتے لیکن یہ سچ ہے کہ ان کے پاس بھتے کے کیسز زیادہ تر دیر اور باجوڑ سے ہی آرہے ہیں، جن میں ایک کیس دیر فارسٹ آفیسر کا بھی ہے۔
انہوں نے بتایا ’ہم پہلے اس میں یہ انکوائری کر رہے ہیں کہ کہیں اس میں ان کا کوئی رشتہ دار یا علاقے کا شخص تو ملوث نہیں یا واقعی یہ کام طالبان نے کیا ہے۔ اگر طالبان نے کیا ہے تو اس کیس پر کام کریں گے۔‘
نامہ نگار مونا خان کے مطابق پاکستان میں ان واقعات کے علاوہ گذشتہ روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار اہم رہنماؤں اور پاکستانی حکام سے مذاکراتی عمل میں پیش پیش مولوی عبدالولی عرف مولوی عمرخالد خراسانی، مفتی حسن، حافظ دولت اور ان کا ساتھی عبدالولی کے بارے میں خبریں ہیں کہ وہ پاکستان سرحد سے متصل افغان صوبہ پکتیکا کے علاقہ بیرمل میں ایک دھماکے سے تباہ ہونے والی گاڑی میں مارے گئے, جس کی ٹی ٹی پی نے منگل کو ایک جاری بیان میں تصدیق کر دی۔
افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کئی ماہ سے پاکستانی حکام، علما اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی۔
ان واقعات کے پیش نظر انڈپینڈنٹ اردو نے دفاعی اور عسکریت پسندی کے موضوع پر ماہرین سے گفتگو میں جاننے کی کوشش کی آیا قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی لوٹ رہی ہے؟
سابق وزیر دفاع جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے مونا خان سے گفتگو میں بتایا کہ آج کل ہائی بریڈ وار فیئر کا زمانہ ہے، دشمنوں کا علم ہونا ضروری ہے۔
’یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس کے جانے کے باعث خطے میں حالات بہتر ہوئے اور وہ کون ہے جس کے علاقے میں آنے سے حالات خراب ہوئے۔‘
افغان و طالبان امور کے ماہر اور پشاور سے صحافی محمود جان بابر نے بتایا کہ عمر خالد خراسانی فاٹا کی سابق حیثیت بحال کرنے اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے ٹی ٹی پی کا نام بدلنے کے حق میں نہیں تھے۔ ’وہ کہتے تھے کہ وہ ان دو مطالبات کو مان کر اپنی باقی ماندہ زندگی کو مشکل نہیں بنانا چاہتے۔
’ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ پھر مذاکرات کیوں کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے کابل آنے والے قبائلیوں، علما اور اپنے جاننے والوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ان کو اپنے کچھ مطالبات دیے ہیں جنہوں نے ان سے تین ماہ کا وقت مانگا ہے لیکن تین ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی عمرخالد خراسانی ہی دنیا میں نہیں رہے۔‘
صحافی محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوا کہ اس قسم کے حملوں سے مذاکراتی عمل بلکہ فریقین کے مابین معاہدے ہوتے ہوتے رہ جاتے تھے۔
’اب بھی اس کا امکان تو موجود ہے کہ طالبان مذاکراتی عمل سے مزید انکار کردیں لیکن یہ مذاکرات پہلے کے مقابلے میں کچھ مختلف ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے اس قسم کے مذاکرات میں صرف پاکستان کی فوج ہی ان سے بات کرتی تھی اب کی بار اس عمل میں قبائلی عمائدین اور خود ان طالبان رہنماوں کے رشتے دار، دوست ان کے ساتھ بات چیت کے لیے بھیجے گئے، علما کرام بھی اس میں شامل ہیں جن کا وہ بہت احترام کرتے ہیں۔
سوات میں شدت پسندی لوٹنے لگی؟
سوات میں طالبان کی موجودگی کے بارے میں افواہیں پچھلے کچھ عرصے سے گردش میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی خان سیف نے انیلا خالد کے ساتھ صوبائی حالات خصوصاً سوات کے حالیہ واقعات پر بات چیت کے دوران بتایا کہ یہ خبریں جزوی طور پر سچ ہیں لیکن زیادہ تر پروپیگینڈے کا حصہ ہیں۔
’جزوی طور پر صحیح یا غلط اس طرح ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ طالبان کی ایک بڑی قیادت ہے، جہاں سے فیصلے صادر ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی کوشش ہوتی ہے جبکہ ان ہی کے مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گروپ بھی ہوتے ہیں اور وہ اپنے فیصلے اور من مانیاں کرتے ہیں۔‘
بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ہوسکتا ہے طالبان کے بعض چھوٹے گروپ اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہوں، ’جس کا مقصد افغانستان میں امن مذاکرات کو خراب کرنا ہے۔‘
کیا سوات میں حالات واقعی خراب ہیں؟
اس سوال کے جواب میں مقامی صحافی رفیع اللہ خان نے انیلا خالد کو بتایا کہ یہ خدشہ بہت پہلے بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ سوات میں طالبان ازسرنو منظم ہوسکتے ہیں۔
’تاہم یہ ماضی کی طرح مضبوط نہیں ہوں گے بلکہ گروہوں کی شکل میں ظاہر ہوں گے جو کبھی ٹارگٹ کلنگ اور کبھی بھتہ مانگ کر امن کو خراب کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی مینگورہ، سیدو شریف، مالم جبہ اور دوسرے علاقوں میں مکمل امن و امان قائم ہے اور کوئی ایسا واقعہ فی الحال پیش نہیں آیا جس میں کسی مسلح گروپ نے عام شہریوں کو نقصان پہنچایا ہو۔
’جو واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، وہ سوات کا پہاڑی علاقہ ہے، جہاں کسی مسلح گروہ کے لیے چھپنا اور نقل وحرکت کرنا آسان ہے۔ ظاہر ہے ان زگ زیگ پہاڑوں اور گھنے جنگلوں میں پولیس کے لیے پوری طرح رٹ قائم کرنا مشکل ہے۔ باقی سوات میں سکون ہے۔‘
رفیع اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں دہشت گردی مٹہ اور کبل کے علاقوں سے پورے سوات میں پھیل گئی تھی۔ ’تب بھی باقی سوات میں امن تھا اور فضل اللہ اکثر ان علاقوں کے باسیوں کو طنز وتضحیک کا نشانہ بناتا تھا کہ یہ لوگ اس کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔‘
جامعہ پشاور کے شعبہ ایریا سٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر سرفراز خان نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسند کھلم کھلا گھوم رہے ہیں اور وہ قبائلی اضلاع کے انضمام کو نہیں مانتے۔
’دوسری جانب سوات میں طالبان پھر سے منظم ہو گئے ہیں۔ دو دن قبل دیر میں رکن صوبائی اسمبلی پر حملہ ہوا۔ باجوڑ کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
’پشاور میں طالبان بھتہ مانگ رہے ہیں۔ کرک میں خواتین کو نہ نکلنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ باجوڑ میں خواتین کو گھر سے نہ نکلنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ پورا صوبہ تو طالبان کی لپیٹ میں آچکا ہے، بچا کیا ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ چاہے پرویز مشرف کی حکومت تھی یا متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) یا پھر تحریک انصاف کی حکومت ’یوں لگتا ہے کہ ان کی پالیسیاں طالبان کے حق میں بہت لچک دار اور سافٹ رہی ہیں۔‘