طالبان سے مذاکرات کی حامی محبوبہ امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد

نوبیل کمیٹی نے ایران جیل میں قید نرگس محمدی کو بھی نامزد کیا ہے۔ محبوبہ سراج اس وقت افغانستان میں مقیم ہیں اور دنیا اور افغانستان کے عوام سے طالبان کے ساتھ بات چیت پر زور دیتی ہیں۔

افغان ویمن نیٹ ورک کی محبوبہ سراج جن کے پاس امریکی شہریت بھی ہے 24 جنوری، 2022 کو ناروے کے شہر اوسلو میں بین الاقوامی خصوصی نمائندوں اور سول سوسائٹی کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے افغان نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ رہی ہیں (اے ایف پی)

اوسلو پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اعلان کیا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی کارکن محبوبہ سراج اور انسانی حقوق کی ایک ایرانی کارکن نرگس محمدی کو مشترکہ طور پر امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

نرگس محمدی کئی سالوں سے ایران کی جیل میں ہیں لیکن محبوبہ سراج اس وقت افغانستان میں مقیم ہیں اور دنیا اور افغانستان کے عوام سے طالبان کے ساتھ بات چیت پر زور دیتی ہیں۔

کئی ٹیلی ویژن انٹرویوز میں محبوبہ نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ممکن ہے۔ انہوں نے طالبان سے افغان خواتین سے بات چیت کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

ایک ہفتہ قبل کینیڈین میڈیا ’سی بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے محبوبہ سراج نے اس بات پر زور دیا تھا کہ طالبان کو تنہا کرنے سے افغانستان کے عام اور غریب شہریوں کو نقصان پہنچے گا۔

نرگس محمدی ایک سرکردہ ایرانی انسانی حقوق کی کارکن اور صحافی ہیں جنہوں نے خواتین کے حقوق اور سزائے موت کے خاتمے کے لیے مہم چلائی ہے۔ وہ ایران میں جیل میں کئی ادوار گزار چکی ہے اور اس وقت 'ریاست کے خلاف پروپیگینڈا' پھیلانے سمیت دیگر الزامات کے تحت طویل قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کی قید کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

نوبیل کمیٹی کے ڈائریکٹر نوبیل امن انعام کے لیے اپنی مختصر فہرست ہر سال پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادانہ تشخیص کی بنیاد پر سب سے زیادہ قابل ممکنہ انعام یافتہ افراد پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ 

نرگس محمدی انسانی حقوق کے محافظوں کے مرکز کے نائب سربراہ ہیں، جس کی قیادت 2003 کی نوبیل امن انعام یافتہ شیریں عبادی کر رہی ہیں۔ وہ ایران میں نیشنل کونسل آف پیس کی ایگزیکٹو کمیٹی کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔

دوسری جانب محبوبہ سراج ایک ممتاز افغان صحافی اور خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں۔ 26 سال کی جلاوطنی کے بعد، وہ 2003 میں افغانستان واپس آئیں اور اب کابل میں مقیم ہیں۔ وہ بچوں کی صحت، تعلیم، بدعنوانی سے لڑنے اور گھریلو زیادتی سے بچ جانے والوں کو بااختیار بنانے کی چیمپئن ہیں۔

وہ غیر منفعتی افغان خواتین کے نیٹ ورک اور آرگنائزیشن فار ریسرچ ان پیس اینڈ سالیڈریٹی کی بانی بھی ہیں۔ انہوں نے امن جرگہ اور اعلیٰ امن کونسل میں خواتین کی شرکت پر زور دیا ہے۔

اوسلو پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جس نے محبوبہ سراج کو امن کے نوبیل انعام کے لیے امیدوار نامزد کیا، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں میں سے ایک ہے اور وہ افغانستان کی خراب انسانی صورت حال پر دنیا کی توجہ کو اپنی ترجیح سمجھتا ہے۔

محبوبہ سراج کا تعارف کروانے کے مقصد سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس تحقیقی مرکز نے یہ بھی لکھا: ’افغانستان میں طالبان کے متبادل بہت کم ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ جمہوری شراکت، انسانی حقوق کے احترام اور حقوق کے لحاظ سے طالبان سے بہتر ہوں۔‘

امن کا نوبیل انعام دنیا کا سب سے باوقار اعزاز ہے۔ یہ ہر سال ناروے کی نوبیل کمیٹی کی طرف سے امن کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف کے طور پر افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے۔

ناروے کی  نوبیل کمیٹی 31 جنوری کی آخری تاریخ تک موصول ہونے والی درست نامزدگیوں پر فیصلہ کرتی ہے۔ اس انعام کے لیے کسی کو بھی نامزد کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، تاریخ نے ہمیں ہٹلر سمیت چند مشکوک امیدواروں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نامزدگی کا حق قومی   اسمبلیوں اور حکومتی اراکین، کمیٹی کے موجودہ اور سابق اراکین، امن انعام یافتہ، بعض شعبوں کے پروفیسرز، امن تحقیق اور خارجہ پالیسی کے اداروں کے ڈائریکٹرز، اور بین الاقوامی عدالتوں کے اراکین کے لیے محفوظ ہے۔

پانچوں کمیٹی ممبران کے پاس آخری تاریخ کے بعد اپنی پہلی میٹنگ تک اپنی نامزدگی شامل کرنے کا وقت ہے۔ انعام یافتہ شخصیات کا اعلان ہر سال اکتوبر میں کیا جاتا ہے۔

افغانستان میں خواتین سیاسی اور سماجی کارکنوں کی ایک اور بڑی تعداد، جنہوں نے تبدیلی کے لیے افغان خواتین کا اتحاد تشکیل دیا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے طالبان کو ہٹانے اور خواتین کی موجودگی کے ساتھ نئی حکومت بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

ناروے میں افغانستان کی سابق سفیر شکریہ بارکزئی نے حال ہی میں انڈپینڈنٹ فارسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کی سوچ میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ افغان خواتین پر ان گنت پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین بھی جو اعلیٰ سطحی بین الاقوامی وفد کی سربراہی میں اس ملک میں جاتے ہیں تو بے عزتی بھی کرتے ہیں۔

بارکزئی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کی اور افغان خواتین کے اتحاد کی تبدیلی کی بنیادی خواہش طالبان کو اقتدار سے گرانا اور افغانستان میں خواتین کی قیادت کے لیے جگہ بنانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محبوبہ سراج کی نامزدگی پر بعض خواتین کارکن اسے نیک شگون قرار دے رہی ہیں لیکن بعض اس سے خوش نہیں۔ ان میں سے چند خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جمعرات کو محبوبہ سراج کی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر احتجاج کرتے ہوئے افغان خواتین کے حوالے سے ان کے اقدامات پر تنقید کی اور ان پر طالبان کے جرائم کو قابل قبول بنانے کا الزام لگایا۔

محبوبہ سراج ڈیڑھ سال سے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں رہ رہی ہیں اور افغانستان وومن نیٹ ورک نامی تنظیم کی بانی ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، ایک افغان شہری کے اس سوال کے جواب میں جس نے ان سے پوچھا کہ وہ طالبان کے خلاف خواتین کے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں کیوں شریک نہیں ہوئیں پر انہوں نے کہا: ’میں نے احتجاج کرنے والی خواتین سے کہا کہ اگر وہ ایک ہزار خواتین کو مظاہرے کے لیے تیار کر سکتی ہیں۔ پھر میں ان کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔‘

محبوبہ سراج کے اس بیان کو خواتین مظاہرین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ افغانستان میں واحد گروپ تھے جنہوں نے گذشتہ ڈیڑھ سال میں گرفتاری، تشدد اور یہاں تک کہ طالبان کے خواتین مخالف احکامات پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس کے علاوہ، محبوبہ سراج کو طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کے وجود سے انکار کرنے پر لوگوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ میڈیا میں اپنے انٹرویوز میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کے خلاف قومی مزاحمتی محاذ اور دیگر مسلح گروہوں کے وجود سے ہمیشہ انکار کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پنج شیر اور ملک کے دیگر حصوں میں سکیورٹی ہے اور طالبان کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہے۔

محبوبہ سراج نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ یہ کہا کہ نہ تو افغانستان کے شہریوں کا طالبان سے کوئی سنگین مسئلہ ہے اور نہ ہی طالبان کو شہریوں کے ساتھ، بلکہ صرف معاشی بحران اور طالبان کی بین الاقوامی تنہائی نے افغانستان کے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر انڈپینڈنٹ فارسی پر بھی شائع ہوچکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین