نیلسن منڈیلا کو نوبیل انعام ’عدم مساوات کو چھپانے‘ کی کوشش تھی

121 سال کے دوران نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق دنیا کے شمالی خطوں سے ہے اور صرف مٹھی بھر اقلیتیوں یا خواتین کو اس سے نوازا گیا ہے۔

اب تک نوبیل انعام جیتنے والے 954 افراد میں سے 6 فیصد خواتین اور محض 16 سیاہ فام باشندے ہیں۔ کسی بھی سیاہ فام شخص کو طب، طبیعیات یا کیمیا کی کیٹیگری میں اب تک ایک بھی ایوارڈ نہیں دیا گیا (اے ایف پی)

دو دن پہلے نوبیل پرائز ایوارڈ کی سالانہ تقریب معنقد ہوئی، جس میں اس سال کے عظیم مفکروں، امن سازوں، اور تخلیق کاروں کے اعزاز میں ایک پر وقار دعوت کا انعقاد سویڈش دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شاندار اور مسحور کن جشن کے ساتھ کیا گیا۔

تقریباً 30 سال پہلے میرے دادا نیلسن منڈیلا نے بھی ایک ایسی ہی ایوارڈز کی تقریب میں شرکت کی تھی جن کو جنوبی افریقہ میں المناک نسلی عصبیت کو ختم کرنے میں کردار ادا کرنے کے لیے امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

میں شکر گزار ہوں اور اس پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ میرے دادا نے نوبیل انعام جیتا ہے لیکن جب میں دنیا کی جانب سے جنوبی افریقہ کی حالت زار پر مغرب کے سست ردعمل اور اس بات پر غور کرتی ہوں کہ کس طرح مغربی رہنماؤں کو یہاں نسلی عصبیت کے خلاف کھڑے ہونے میں برسوں لگے تو میں یہ سوچ کر ششدر رہ جاتی ہوں کہ کیا منڈیلا کو صرف نوبیل کمیٹی کی ساکھ کو اچھا دکھانے کے لیے انعام دیا گیا تھا؟

جدید زندگی کے دیگر بہت سے پہلوؤں کی طرح نوبیل انعام میں بھی دوسرے ایوارڈز کی طرح نمائندگی کا مسئلہ ہے۔ 1901 میں پہلے نوبیل انعامات دیے گئے اور اس بات کو 121 سال بیت چکے ہیں لیکن یہ انعام حاصل کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق دنیا کے شمالی خطوں سے ہے اور صرف مٹھی بھر اقلیتوں یا خواتین کو اس سے نوازا گیا ہے۔

اب تک نوبیل انعام جیتنے والے 954 افراد میں سے صرف 6 فیصد خواتین ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اگرچہ 1950 میں پہلے سیاہ فام شخص کو یہ ایوارڈ دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد صرف 16 سیاہ فام لوگوں کو ہی اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ کسی بھی سیاہ فام شخص کو طب، طبیعیات یا کیمیا کی کیٹیگری میں اب تک ایک بھی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔

بلاشبہ یہ صورت حال بذات خود وسیع تر معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جہاں اقلیتوں اور خواتین کو اکثر نظام میں موجود مسائل کی وسیع وجوہات کی وجہ سے ان اہم سائنسی مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ نظام میں موجود مسائل میں معاشی تفاوت، صنف کے حوالے سے موجود دقیانوسی تصورات شامل ہیں یا صرف اس وجہ سے کہ ان شعبوں میں پہلے سے ہی خواتین یا اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے رول ماڈلز کا فقدان ہے۔

اور جب کہ نوبیل انعام عالمی عدم مساوات کی محض ایک علامت ہو سکتی ہے لیکن اصل میں یہ ہے کہ یہ حقیقی دنیا کے اعمال کا انجام ہے۔

نوبیل انعام جیتنے والوں کو ایک بڑی رقم (ایک کروڑ سویڈش کرونا یا تقریباً نو لاکھ امریکی ڈالر) دی جاتی ہے اور ساتھ ہی انہیں اپنے شعبوں کے مستقبل کی تشکیل جاری رکھنے کے لیے تکریم اور قیادت سے بھی نوازا جاتا ہے۔ چاہے وہ امن، کیمیا یا ادب کے شعبے ہوں، نوبیل انعام جیتنے سے وہ بطور عظیم مفکرین اور رہنما سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جہاں وہ دنیا بھر میں ہونے والے پروگراموں میں بات کرتے ہیں، ہم خیال لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور دوسروں کو مدد فراہم کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

برسوں سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس اعزاز سے مغرب کو نوازا گیا ہے جس سے دنیا کے شمال اور جنوب کے درمیان خلیج مزید گہری ہو رہی ہے۔ جنوب کے لوگ خود کو تقریباً ہر عالمی مسئلے میں شمال سے متصادم پاتے ہیں۔

اور یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دنیا کے آنے والے بحران جنوب کی مختلف فالٹ لائنز کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ یہ تنازعات ہوں، خوراک کی قلت ہو یا موسمیاتی تبدیلیاں، یہ تمام بحران جنوب کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہے ہیں لیکن انہیں دنیا مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔

جنوب میں ایسے لاتعداد گمنام اور فنڈ کی کمی کے شکار پروجیکٹس، ایجادات اور افراد موجود ہیں جو نمائندگی یا درست پلیٹ فارم کے ساتھ دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر اِدنا عدنان اسماعیل صومالیہ کی پہلی تربیت یافتہ نرس اور مڈوائف تھیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی خواتین کے ختنہ کی فرسودہ رسم کو ختم کرنے کی کوشش میں گزار دی۔ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسیٰ، جنہوں نے حال ہی میں سب سے سینیئر اسلامی وفد کے ساتھ پولینڈ میں ہولوکاسٹ کیمپ آشوٹز کا دورہ کیا، نے اپنی زندگی مسلم دنیا میں یہود مخالف اور ہولوکاسٹ سے انکار کے خلاف جنگ کے لیے وقف کر دی۔

اور آخر میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسان دوست عبدالستار ایدھی جنہوں نے ملک گیر فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا۔ انہیں کئی بار نوبیل کے لیے نامزد کیا گیا لیکن وہ کبھی اسے جیت نہیں سکے۔

ناانصافی کی یہ مثالیں محض آٹے میں نمک کے برابر ہیں جب کہ ’می ٹو‘ اور ’بلیک لائیوز میٹر‘ جیسی مہمات کے بعد کے سالوں میں نوبیل انعام کے عمل پر بتدریج بحث کی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں کمیٹی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کوٹہ جیسے حل کے ذریعے نمائندگی کے فرق کو دور کرے یا اپنے خفیہ انتخابی عمل کی تفصیلات کو ظاہر کرکے اور اسے جانچ پڑتال کے لیے کھولے۔ اس سب کے باوجود بھی، آج تک، کمیٹی کے عہدیدار تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔

نوبیل کو متنوع بنانا ان افراد تک پلیٹ فارمز کو پھیلانے میں اہم ہے جو عالمی نبض کو تبدیل کر سکتے ہیں اور دنیا کی سب سے سنگین ہنگامی صورت حال کا حل نکال سکتے ہیں۔

آخر کار میرے دادا اس انعام کے مستحق ٹھہرے لیکن ان کی نامزدگی سے ایسا محسوس نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی کو عوامی تنقید سے بچانے اور یورپ کا غلبہ جاری رکھنے کے لیے کیا گیا۔ دنیا کے جنوب سے ایسے افراد کی عظمت کو تسلیم کرنا معمول ہونا چاہیے نہ کہ کوئی رعایت۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ