جب حسینہ معین کو مری کی سیر کے دوران ’دھوپ کنارے‘ کا خیال آیا

ناظرین کے لیے مرینہ خان اور راحت کاظمی کی عمروں کے واضح فرق کی وجہ سے ہیرو اور ہیروئن کا ملاپ تھوڑا عجیب تھا لیکن اس کے باوجود ’دھوپ کنارے‘ نے شہرت کی بلندیاں حاصل کیں۔

’دھوپ کنارے‘ پاکستانی ڈراموں کے تاریخی اور سنہری دور کا یادگار شاہکار ہے (پاکستان ٹیلی ویژن)

حسینہ معین، راحت اور ساحرہ کاظمی مری میں سیر سپاٹے کے لیے موجود تھے۔ اسی دوران انہیں ایک وسیع و عریض بنگلے میں رکنا پڑا جو اپنی خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر کی بنا پر راحت کاظمی کو متاثر کر گیا۔

حسینہ معین سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس عالیشان رہائش گاہ کو دیکھتے ہوئے کوئی ڈراما لکھیں۔ حسینہ معین نے چند لمحے سوچا اور پھر کشادہ اور قدرتی حسن سے مالا مال باغ میں بیٹھے بیٹھے انہوں نے ایک کہانی کا خاکہ ترتیب دیا، جس کی کہانی ایک وسیع و عریض مکان کے گرد گھومتی ہے۔

حسینہ معین نے کراچی واپس آ کر اس بکھرے ہوئے خاکے میں رنگ بھرے۔ اب کے ایک لاوارث بچے کی داستان ابھر کر سامنے آئی، جسے ایک دولت مند شخص گود لیتا ہے اور پھر اسے ایسی اعلیٰ تعلیم دیتا ہے کہ وہ نامور ڈاکٹر بن جاتا ہے۔

ڈاکٹر کے ذہن میں عالیشان مکان میں گزارے بچپن کے لمحات قید تھے لیکن وہ یہ جان کر دکھی اور رنجیدہ ہو جاتا ہے کہ گود لینے والے والد نے سب کچھ اس کے نام کیا لیکن وہ رہائش گاہ نہیں جس میں ڈاکٹر کا بچپن گزرا، بلکہ یہ مکان اپنی پوتی کے نام کر دیا، جو ڈرامائی کشمکش کھاتی ہوئی ڈاکٹر کے ہی ہسپتال میں ملازمت کرنا شروع کر دیتی ہے اور پھر دونوں کی کہانی مختلف موڑ کاٹتے ہوئے پیار کی وادی میں جا ملتی ہے۔

ڈاکٹر اس مکان کو ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہی ڈرامے کا خاصہ تھا کہ مکان ڈاکٹر احمر کو ملتا ہے کہ نہیں۔ اس ڈرامے کو ’دھوپ کنارے‘ کا نام دیا گیا، جس کی کہانی کی نوک پلک سنوارتے ہوئے اور اس میں کچھ نیا پن کا ہی سوچ کر ڈاکٹر یعنی احمر انصاری کو ہیروئن ڈاکٹر زویا سے زیادہ عمر کا دکھایا گیا۔

حسینہ معین کے 90 کی دہائی میں نشر ہونے والے اس ڈرامے میں ڈاکٹر زویا کے لیے مرینہ خان کا جبکہ ڈاکٹر احمر انصاری کے لیے راحت کاظمی کا انتخاب ہوا۔ ’دھوپ کنارے‘ کی ڈائریکشن ساحرہ کاظمی کے ذمے تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مرینہ خان ’تنہائیاں‘ جیسے ڈرامے سے شہرت حاصل کرکے سپر سٹار ہونے کا درجہ پا گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’دھوپ کنارے‘ نے پہلی ہی قسط سے ناظرین میں اپنی گرفت مضبوط کر لی۔

ناظرین کے لیے عمروں کے واضح فرق کے ہیرو اور ہیروئن کا ملاپ تھوڑا عجیب تھا، لیکن اس کے باوجود ’دھوپ کنارے‘ نے شہرت اور مقبولیت کے نئے ریکارڈز بنائے۔

’دھوپ کنارے‘ کے ذریعے ہی ساجد حسن ابھر کر سامنے آئے۔ چلبلے، عاشق مزاج، ہنس مکھ اور فقرے بازی کرنے والے ڈاکٹر عرفان کے روپ میں ساجد حسن کی اداکاری اپنے عروج پر رہی۔

ساجد حسن نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ’دھوپ کنارے‘ میں کام کرنے کا معاوضہ تک نہیں ملا تھا لیکن انہوں نے یہ ڈراما اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ڈراما ہٹ ہو گا جو ان کے کیریئر کو نیا رخ دے گا۔ ساجد حسن کا یہ پہلا ڈراما سیریل تھا۔ اس سے پہلے وہ دو قسطوں پر مبنی ڈرامے ’بدلتے قالب‘ میں کام کر چکے تھے، جس کی ہدایات بھی ساحرہ کاظمی نے دی تھیں اور وہ ان کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئی تھیں کہ ’دھوپ کنارے‘ میں اہم کردار دے دیا۔

ناظرین کے لیے یہ بات بھی کسی دلچسپی سے کم نہیں تھی کہ حسینہ معین کے اس ڈرامے میں بدر خلیل جو ’تنہائیاں‘ میں مرینہ خان کی خالہ بنی تھیں، اب ’دھوپ کنارے‘ میں مرینہ خان کی رقیب رو سیاہ کے روپ میں سامنے آئیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہیں۔

وہ کوئی ایسا موقع نہیں جانے دیتیں کہ ڈاکٹر احمر ان سے بدگمان ہو جائیں کیونکہ وہ خود ڈاکٹر احمر انصاری کو پسند کرتی ہیں۔ ساحرہ کاظمی نے مرینہ خان کی دوست انجی کے لیے ان کی بچپن کی پکی سہیلی کہکشاں اعوان کا انتخاب کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرینہ خان کہتی ہیں کہ ان کے لیے ’دھوپ کنارے‘ خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ راحت کاظمی کے ساتھ کام کرنا ان کی زندگی کا یادگار تجربہ رہا۔ بالخصوص ایسے میں جب وہ جملوں کی ادائیگی میں تاثرات کے ساتھ ساتھ تلفظ پر خاصی توجہ دیتے۔ مرینہ خان کا پس منظر چونکہ انگریزی ماحول سے تھا تو جب کسی لفظ کا تلفظ درست نہ ادا ہوتا تو راحت کاظمی، ساحرہ پر برہم ہوتے ہوئے کہتے کہ انگریزی لب و لہجے والوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ وہ اردو تلفظ سے لاعلم ہوتے ہیں۔

ڈرامے کی آخری قسط میں راحت کاظمی اور مرینہ خان کا ایک منظر دو الگ الگ انداز میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ وہ منظر تھا جس میں راحت کاظمی کا ہاتھ مرینہ خان کو پکڑنا تھا۔ ساحرہ کاظمی کے مطابق ریکارڈ ہونے والے دوسرے منظر میں ایسا کرتے ہوئے نہیں دکھایا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اگر مرد کے خاتون کا ہاتھ پکڑنے پر اعتراض کرکے اسے قطع و برید کا نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے تو ساحرہ کاظمی کے پاس اس کا متبادل ہو لیکن یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ہاتھ پکڑنے کا منظر سینسر کی نذر نہیں ہوا۔ اس منظر کے لیے ساحرہ کاظمی نے نیرہ نور کی آواز میں فیض احمد فیض کی نظم ’رات یوں دل میں‘ ریکارڈ کی۔

ساحرہ کاظمی کا ’دھوپ کنارے‘ انڈیا اور سعودی عرب میں نشر ہوچکا ہے جبکہ انڈیا میں اسی ڈرامے سے متاثر ہو کر 2011 میں ’کچھ تو لوگ کہیں گے‘ نشر ہوا جس میں راحت کاظمی والا کردار موہنیش بہل اور مرینہ خان کا کردار کرتیکا کامرہ نے ادا کیا۔

’دھوپ کنارے‘ پاکستانی ڈراموں کے تاریخی اور سنہری دور کا یادگار شاہکار ہے اور آج بھی مرینہ خان اور راحت کاظمی کے چاہنے والے اسے بار بار دیکھنے سے خود کو روک نہیں پاتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ