افتخار احمد آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کے مستحق نہیں

افتخار جن صلاحیتوں کے حامل کرکٹر ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم ان سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

افتخار احمد نے 2022 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف نصف سنچریاں بنائیں (اے ایف پی)

 

آپ اس کالم کو یہاں سن بھی سکتے ہیں

پاکستان کرکٹ ٹیم کو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کا سنہری موقع لاہور میں تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ملا لیکن سنسنی خیز مقابلے کے بعد صرف چار رنز کی شکست کے نتیجے میں یہ سیریز تین - صفر ہونے کی بجائے دو- ایک ہوگئی اور اس کے بعد راولپنڈی میں چوتھا میچ بارش کی نذر ہوگیا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے پاس سیریز برابر کرنے کا موقع موجود ہے اور اگر وہ پیر کو راولپنڈی میں پانچواں اور آخری میچ جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں اپنی موجودہ تیسری پوزیشن سے محروم ہوکر ایک درجہ نیچے یعنی چوتھے نمبر پر آنا پڑے گا۔

اگر پاکستان یہ سیریز تین- دو سے اپنے نام کرتا ہے تو عالمی رینکنگ میں اس کی تیسری اور نیوزی لینڈ کی پانچویں پوزیشن برقرار رہے گی۔

لاہور کا وہ تیسرا میچ افتخار احمد کی شاندار بیٹنگ کی وجہ سے یاد رہے گا، جنہوں نے ایک ایسے وقت پر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی جب میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

وہ کریز پر اس وقت آئے جب پاکستان کی چھ وکٹیں صرف 64 رنز پر گر چکی تھیں۔ افتخار نے صرف 24گیندوں پر60 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر پاکستان کو تقریباً میچ جتوا دیا تھا۔

ان کی کریز پر موجودگی میں نسیم شاہ نے تین گیندیں ضائع کر دیں اور پھر آخری دو گیندوں پر حارث رؤف سے بھی جیت کے لیے درکار پانچ  رنز نہ بن پائے۔

افتخار سے پہلے عماد اور شاہین کیوں؟

یہاں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ افتخار احمد کو اس میچ میں آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔

اگر اس فارمولے کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بیٹنگ آرڈر میں لچک موجود ہوتی ہے اور اس میں صورت حال کے مطابق تبدیلی ہوتی ہے تب بھی آپ بیٹنگ آرڈر میں کوئی ایک آدھ بیٹسمین کی تبدیلی کرلیتے ہیں۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک کے بعد ایک، تین بیٹسمینوں کو (جن میں دو آل راؤنڈر کہلاتے ہیں اور ایک غیر مستند بیٹسمین ہے ) انہیں ایک مستند بیٹسمین کے اوپر بھیج دیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاداب خان اور عماد بیٹنگ میں بھی متعدد بار اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں لیکن یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ ان دونوں کے بعد شاہین کو بھی اوپر بھیجنے کی ضرورت کیا تھی؟

حالیہ دنوں میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ شاہین پی ایس ایل میں بیٹنگ آرڈر میں اوپر آکر ایک دو اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے تھے۔

غالباً اب یہ تجربہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی دہرایا جا رہا ہے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور اس کا معیار ڈومیسٹک کرکٹ یا پی ایس ایل سے بلند ہوتا ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے شاہین کو شاہد آفریدی بنانے کی تیاری شروع ہو چکی ہے بلکہ انہیں مستقبل کے کپتان کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جیسا کہ ان کی ٹیم لاہور قلندرز کے کوچ عاقب جاوید نے خیال ظاہر کیا ہے کہ بابر اعظم کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو کپتان ہونا چاہیے حالانکہ وائٹ بال کرکٹ میں بابر اعظم کی بحیثیت بیٹسمین اور کپتان کارکردگی ایسی نہیں کہ ان کی جگہ کسی دوسرے کو فوری طور پر کپتانی دے دی جائے۔

افتخار کو آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ اس لیے بھی سمجھ سے باہر تھا کہ ایک میچ پہلے ہی انہوں نے چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 19گیندوں پر تین چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے33 رنز ناٹ آؤٹ سکور کیے جس کے بعد انہیں بیٹنگ آرڈر میں اتنا نیچے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تھے اس وقت پانی سر کے اوپر ہوچکا تھا۔ شاداب، عماد اور شاہین سے وہ نہیں ہو سکا جس کی توقع کپتان بابر کر رہے تھے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس مرحلے پر افتخار ناکام ہوجاتے تو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف طوفان کھڑا ہو جانا تھا۔

ویسے بھی افتخار ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو پرفارم کرکے بھی سوشل میڈیا پر تنقید اور طنزیہ فقروں کی زد میں رہے ہیں۔

جس وقت افتخار کریز پر آئے تھے پاکستانی اننگز کی 49 گیندیں باقی رہتی تھیں اور ان میں سے انہوں نے صرف 24 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے بازی تقریباً پلٹ دی تھی۔

افتخار کے ٹی ٹوئنٹی کیریئر پر نظر ڈالیں تو وہ اب تک 48 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں 778 رنز بنا چکے ہیں جن میں چار نصف سنچریاں شامل ہیں۔

ان کا سٹرائیک ریٹ 131 سے زائد ہے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی بھی ٹیم کا لازمی حصہ نہیں رہے۔

انہوں نے اپنے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز 2016 میں کیا لیکن صرف ایک میچ کے بعد ان کا کم بیک 2019 میں ممکن ہو سکا تھا جب انہوں نے آسٹریلوی دورے میں 62 اور 45 رنز کی دو اچھی اننگز کھیلیں۔

گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی انہوں نے انڈیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف نصف سنچریاں بنائیں۔

ان کا بیٹنگ آرڈر کبھی ایک نہیں رہا۔ کئی بار انہیں چھٹے اور ساتویں نمبر پر بھی بیٹنگ کرنی پڑی، یہاں تک کہ آٹھویں نمبر پر بھی۔

انہوں نے ایک روزہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی 48 کی اوسط سے 3892 رنز بنا رکھے ہیں، جن میں نو سنچریاں شامل ہیں۔

اس کے باوجود انہیں صرف 10 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں چانس مل سکا۔

افتخار جن صلاحیتوں کے حامل کرکٹر ہیں مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ان سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

بلاوجہ کا دباؤ

 سابق کپتان مصباح الحق ہمیشہ سے افتخار کی صلاحیتوں کے معترف رہے ہیں۔ مصباح سے میں نے افتخار کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا ہے کہ افتخار کو جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل سکا۔

ان  کی ایک دو خراب کارکردگیوں کو بنیاد بنا کر ان پر سوشل میڈیا میں تنقید شروع کردی جاتی ہے اور انہیں بلاوجہ انڈر پریشر کر دیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے کئی اچھی اننگز بھی کھیلی ہیں۔

مصباح کہتے ہیں کہ افتخار ناصرف ٹی ٹوئنٹی بلکہ ون ڈے ٹیم میں بھی بڑی آسانی سے جگہ بناسکتے ہیں۔

ان کا ڈومیسٹک ون ڈے ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کو مڈل آرڈر میں ان کی ضرورت ہے جو لمبی اننگز کھیلنے اور میچ ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

عمر اکمل آخر کیا چاہتے ہیں؟

کچھ لوگوں کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ انہیں کسی دوسرے کو اپنا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اپنا دشمن آپ ہوتے ہیں۔

اگر ہم عمر اکمل کے کیریئر پر نگاہ ڈالیں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ ایک انتہائی باصلاحیت بیٹسمین نے خود اپنا کیریئر متاثر کر ڈالا  لیکن وہ حقیقت پسندی سے اپنا تجزیہ کرنے کی بجائے ہر بات کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔

گذشتہ دنوں انہوں نے ایک یوٹیوبر کو دیے گئے انٹرویو میں یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ انہوں نے جن کرکٹرز کے ساتھ کرکٹ کھیلی وہی ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں لہٰذا انہیں مجبور نہ کیا جائے کہ اگر انہوں نے ان کرکٹرز کے راز بتا دیے تو ان کرکٹرز کی کوئی عزت نہیں رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں عمر کن تنازعات میں ملوث رہ چکے ہیں جن میں فیصل آباد کے ایک سٹیج ڈرامے کے موقعے پر انتطامیہ سے جھگڑا۔

حیدرآباد کی ڈانس پارٹی سے پولیس کی حراست۔ لاہور کے ٹریفک وارڈن سے جھگڑا۔یو اے ای میں ٹیم ہوٹل سے باہر رہ کر کرفیو ٹائمنگ کی خلاف ورزی۔سابق ٹیسٹ کرکٹر منصور اختر پر سپاٹ فکسنگ کی مبینہ پیشکش کرنے کا دعویٰ۔

کامران اکمل کو ٹیم سے باہر کیے جانے پر خود بھی کھیلنے سے انکار۔ مکی آرتھر کی جانب سے چیمپیئنز ٹرافی سے قبل وطن واپس بھیجا جانا۔

وقار یونس کی رپورٹ میں ان کے غیر سنجیدہ رویے کا ذکر۔ لاہور قلندرز کے کپتان برینڈن مک کلم کا انہیں ایک پیچیدہ شخص قرار دینا۔ پی ایس ایل کے دوران مشکوک افراد سے رابطہ رکھنا۔

اگر ہم ان تمام واقعات پر نظر ڈالیں تو کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ کیا ان تمام واقعات میں عمرکے ساتھ زیادتی رہی ہو گی اور وہ بے قصور رہے ہوں گے؟ ایسا نہیں ہے۔

عمر نے اپنا نقصان خود کیا ہے جہاں تک رہی ان کی کارکردگی تو اگر وہ کھیل پر توجہ رکھے ہوئے ہوتے تو آج وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کسی سیکنڈ الیون کی بجائے پاکستان ٹیم میں کھیل رہے ہوتے۔

رہی بات یوٹیوبر کو دیے گئے انٹرویو کی تو ان  صاحب کے مزے لے لے کر کیے گئے سوالات سے ان کے فالورز تو یقیناً مزید بڑھ گئے ہوں گے لیکن عمر کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ