ترکی الیکشن: کیا اردوغان کی گرفت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

اردوغان نے ترکی پر اتنے گہرے نشان چھوڑے ہیں کہ اگر وہ ہار بھی جائیں تب بھی ان کے اثرات ایک عرصے تک باقی رہیں گے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان 30 اپریل 2023 کو انقرہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ترک ووٹر 14 مئی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ملک کے اقتدار کا فیصلہ کریں گے۔ ان انتخابات میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا صدر رجب طیب اردوغان کی اقتدار پر دو دہائیوں کی گرفت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

ترکی کی اہم اپوزیشن جماعتوں نے متعدد پرکشش انتخابی وعدے کیے ہیں جن میں معیشت کو فروغ دینا، سیاسی نظام کو جمہوری بنانا، مذہب کو ریاستی امور سے الگ کرنا اور مغرب کے ساتھ ملک کے تعلقات کو بہتر بنانا شامل ہے۔

تاہم یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جا رہی ہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل ہر پارٹی کی پوزیشن میں نمایاں اختلافات ہیں۔ ابھی بھی اہم سوالات باقی ہیں کہ اردوغان کی شکست کے باوجود کوئی ترکی میں کتنی تبدیلی کی توقع کر سکتا ہے۔

بہت سے ترک شہری ترکی کو گذشتہ دو دہائیوں میں شدید ترین معاشی بحرانوں میں سے ایک میں سے نکالنے کے لیے نئی پالیسیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی مسائل اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ سیاسی نظام، سیکیولرزم اور خارجہ تعلقات سے متعلق مسائل زیادہ منقسم ہو گئے ہیں کیونکہ اردوغان حالیہ برسوں میں اپنی طاقت کو مضبوط سے مضبوط تر کر چکے ہیں۔

منقسم اپوزیشن

ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی ہے (جس کا ترک مخفف سی ایچ پی ہے) کی سیکیولر ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف سے تشکیل دی گئی یہ جماعت ترک قوم پرستی کے نظریے کی وفادار ہے اور اسے سیاست کے مرکز میں بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔

سی ایچ پی نے نیشن الائنس نامی اتحاد میں خود کو دیگر قوم پرست اور قدامت پسند قوتوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے، جن کے مشترکہ ووٹ اروغان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (جسے آق پارٹی بھی کہا جاتا ہے) کو شکست دینے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔

اگرچہ ترکی میں پولنگ کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، لیکن تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ صدارتی دوڑ میں  سی ایچ پی کی پوزیشن نسبتاً مضبوط ہے۔ تاہم پارلیمانی انتخابات میں اردوغان کی قدامت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے آق پارٹی بہتر پوزیشن پر نظر آ رہی ہے۔

یہ اپوزیشن کے لیے ایک مسئلہ ہے، جس نے حکمران اتحاد کی قدامت پسند سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔

حزب اختلاف کے رہنما قلیچ‌ داراوغلو ہیں، جنہیں ’نیشن الائنس‘ نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، حالانکہ سی ایچ پی سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات کے مقابلے میں قلیچ‌ داراوغلو کو عوام میں نسبتاً کم پذیرائی ملی ہے۔

قلیچ‌ داراوغلو نے 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ترکی میں پناہ لینے والے مہاجرین کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ حزب اختلاف نے استدلال کیا ہے کہ اردوغان کی تباہ کن مالیاتی پالیسی کے بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ کردار کے باوجود ترکی کے اقتصادی طور پر متاثر ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

تاہم، نمایاں عوامی حمایت کے ساتھ دیگر قوم پرست اور بائیں بازو کی قوتوں نے نیشن الائنس سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

قوم پرستوں کی جانب سے، 2018 کے صدارتی انتخابات کے لیے حزب اختلاف کے امیدوار محرم اینجہ اپنی نئی ہوم لینڈ پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑ رہے تھے مگر ان کی جانب سے دو روز قبل اچانک دستبرداری کے اعلان نے قلیچ دار اوغلو کی پوزیشن مضبوط کر دی ہے۔ 

کٹر قوم پرستوں کی نمائندگی ’آبائی اتحاد‘ طرف سے بھی کی جا رہی ہے، جس کی قیادت سنان اوگان کر رہے ہیں۔

دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتیں صرف پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکی ہیں۔ ترکی کی بڑی کرد اقلیت سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدواروں کو صدارتی دوڑ کے لیے خود کو نامزد کرنے میں خاصی مشکل کا سامنا ہے۔ ان میں سے کئی کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک ہونے کے الزام میں قید کیا گیا ہے۔ ان کے پاس واحد راستہ قلیچ دار اوغلو کی حمایت کرنا ہے۔

اردوغان صدر کے لیے اے کے پارٹی کے امیدوار ہیں۔ یہ پارٹی 2002 سے اقتدار میں ہے۔ اردوغان 2003 میں وزیر اعظم بنے، اور پھر 2018 میں دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے 2014 میں صدارتی انتخاب جیت گئے۔ اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی آخری مدت ہو گی۔

آق پارٹی ایک قدامت پسند جماعت ہے۔ وہ اس وقت انتہائی دائیں بازو کی نیشنلسٹ موومنٹ کے ساتھ اتحاد میں ہے جو بکھری ہوئی اور غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اس غیر مقبول اتحاد کے باوجود اردوغان خود عوام کے ساتھ کسی حد تک سازگار درجہ بندی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر پر کوئی روک ٹوک نہیں

نیشن الائنس نے جو سب سے بڑا عہد کیا ہے وہ ترکی کے صدارتی سیاسی نظام کو دوبارہ پارلیمانی نظام کا حصہ بنانا ہے۔ اردوغان نے 2017 میں ریفرنڈم کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد سے وہ بےمثال طاقت کا استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

بہت سے مبصرین ریفرنڈم کو صدارتی اختیارات پر سے اہم روک ٹوک ہٹانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اس کے علاوہ حزب اختلاف نے ووٹروں کو یقین دلایا ہے کہ وہ اردوغان کے دور اقتدار میں تعلقات تیزی سے خراب ہونے کے بعد یورپ کے ساتھ پیدا ہونے والی دراڑ کو ٹھیک کرے گی۔ ترکی یورپی یونین کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا، جو ملک کی جمہوری گراوٹ کی وجہ سے 2018 سے تعطل کا شکار ہیں۔ روس کے ساتھ ترکی کی اقتصادی اور سیاسی شراکت داری بھی یورپی یونین کے لیے مسئلہ رہی ہے۔

شاید زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپوزیشن مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینے کا وعدہ کر رہی ہے۔ ترکی کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل جیسے واقعات کی وجہ سے یہ تعلقات خراب ہو گئے ہیں ، جس کی وجہ سے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی تھی۔

حزب اختلاف اسرائیل، خلیجی ریاستوں، مصر اور شام کے ساتھ ملک کے تعلقات کو بہتر بنانے کرنے کا بھی عہد کر رہی ہے۔

اردوغان نے ابھی تک ان ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانا ہے، کیونکہ وہ اب بھی آق پارٹی کی حکمرانی میں ترکی کے علاقائی اثر و رسوخ کے بارے میں محتاط ہیں۔ اردوغان نے ترکی کو مشرق وسطیٰ اور وسیع تر خطے میں خاص طور پر عرب بہار کے بعد سٹریٹجک اثر و رسوخ کے ساتھ ایک درمیانی طاقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ انتخابات سے قطع نظر اس اثر و رسوخ کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

تو کیا ترک قیادت میں تبدیلی ترکی اور خطے کو بدل دے گی؟

جواب سادہ نہیں ہے۔ لیکن امکان ہے کہ بہت کچھ وہی رہے گا۔ ترکی کے بہت سے اہم ادارے جیسے پارلیمان، عدالتی نظام اور پریس اردوغان کے دور میں اپنی آزادی کھو چکے ہیں۔

اردوغان کی پارٹی ملکی اور خارجہ پالیسی دونوں میں بہت بااثر ہو چکی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے قدموں کے نشان فوری طور پر غائب نہیں ہوں گے، چاہے وہ دوبارہ منتخب نہ بھی ہوں۔ 

بلکہ انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلے، ترکی اور اس کے پڑوسیوں دونوں کے لیے اردوغان کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی میراث دیرپا ثابت ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں ترک خارجہ تعلقات پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا