ساڑھے تین ہزار آسامیوں کے لیے سات لاکھ درخواستیں

پیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر نے بتایا انہوں نے کبھی زندگی میں درخواست گزاروں کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی، بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اسسٹنٹ لائن مین کی پوسٹ کے لیے ایم اے پاس لوگ درخواست جمع کرا رہے ہیں۔

ورلڈ اکنامک آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق  دسمبر 2024 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.457 پر جا کر رکے گی(اے ایف پی)

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے سینیٹ کے سامنے حیران کن انکشاف کیا کہ انہیں رواں سال جون کے مہینے میں 3596 خالی آسامیوں کا اشتہار جاری ہونے کے بعد ریکارڈ سات لاکھ 37 ہزار69 درخواستیں موصول ہوئیں۔

تقریباً ساڑھے تین ہزار آسامیوں پر سات لاکھ سے زائد درخواستوں کا موصول ہونا سنجیدہ حلقوں کے لیے تشویش ناک خبر ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پیسکو حکام سے دریافت کیا اگرچہ ساڑھے سات لاکھ درخواستیں موصول ہونا صوبے میں بے روزگاری کی بڑھتی شرح کا منہ بولتا ثبوت ہے، لیکن کسی ایک ادارے کی جانب سے ساڑھے تین ہزارآسامیوں کا اشتہار بذات خود کتنا غیر معمولی ہے؟ اور یہ کہ ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پیسکو کو اتنی بڑی تعداد میں ملازمین بھرتی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس پر پیسکو ہیڈ کوارٹر کے چیف ایگزیکٹیو محمد امجد خان نے بتایا ان کی کمپنی میں پچھلے پانچ سال سے مختلف وجوہات کی بنا پر بھرتیاں نہیں ہو پا رہی تھیں، لہذا اس مدت میں مختلف عہدوں کے لیے تقریباً نو ہزار آسامیاں پیدا ہوئیں، تاہم وفاقی حکومت نے 2019 میں انہیں صرف ساڑھے تین ہزار آسامیاں پُر کرنے کی اجازت دی ہے۔

پیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ہیومن ریسورس اقبال حیدر نے بتایا انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران درخواست گزاروں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں دیکھی۔ ’بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اسسٹنٹ لائن مین کی پوسٹ پر، جس کے لیے میٹرک کی شرط ہے، ایم اے پاس لوگ درخواست جمع کرا رہے ہیں‘۔

اقبال حیدر نے بتایا پہلے پیسکو کسی آسامی کے لیے درکار قابلیت رکھنے والے افراد کو ترجیح دیتا تھا لیکن پھر سپریم کورٹ نے حکم جاری کر دیا کہ اگر زیادہ قابلیت رکھنے والے افراد کم عہدے کے لیے درخواست دیں تو انہیں ترجیح دی جائے۔

پاکستان کے شماریاتی ادارے اور دیگر اقتصادی رپورٹس کا جاِئزہ لیا جائے تو 1980 کی دہائی کے بعد بےروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 80 کی دہائی میں پاکستان کی اوسط اقتصادی ترقی 6.5 ریکارڈ ہوئی تھی جب کہ بےروزگاری کی شرح اس زمانے میں صرف 1.4 فی صد تھی۔

اسی طرح 1990 کی دہائی میں بےروزگاری کی شرح بڑھ کر5.7 پر پہنچ گئی جب کہ مجموعی اقتصادی ترقی 4.6 اوسط کے حساب سے رہی تھی۔

2000 کی دہائی میں بےروزگاری کی شرح بڑھ کر 6.8 فی صد جب کہ اقتصادی ترقی4.7 فی صد رہی۔2010-11 میں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں قدرے بہتری آئی لیکن اس کے اگلے ہی سال معیشت دوبارہ لڑکھڑانے لگی اور اس طرح دسمبر 2018 تک پاکستان کی اقتصادی ترقی6.79 پر جا کر رکی تھی۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی’ورلڈ اکنامک آؤٹ لک‘ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال دسمبر کے مہینے تک بےروزگاری کی شرح6.14 فی صد پر چلی جائے گی، ساتھ ہی یہ اندازہ لگایا گیا کہ دسمبر 2024 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.457 پر جا کر رکے گی۔

گو پاکستان میں بڑھتی بےروزگاری کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں لیکن 2018 کے انتخابات کی مہم کے دوران موجودہ حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے بےروزگاری اور غربت کی وجہ پچھلی حکومتوں کی بدعنوانی اور غفلت قرار دیا تھا، لہذا پی ٹی آئی نے اپنے پہلے 100 دن کے ایجنڈے بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت بےروزگاری ختم کرنے کے لیے ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھروں کا انتظام کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اس منصوبے کی تکمیل کے لیے عملی طور پر کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا موجودہ مسائل کی وجہ جاننے کے لیے ماضی پر نظر ڈالنی پڑتی ہے، ماضی میں بروقت منصوبہ بندی ہوتی تو شاید آج ملک اس نہج پر کھڑا نہ ہوتا۔

’ہماری حکومت منصوبہ بندی کر رہی ہے لیکن سب کچھ راتوں رات نہیں ہو سکتا۔ ایک کروڑ نوکریاں دلوانا ہمارا نصب العین ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہر فورم پر کام ہو رہا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرکاری و نجی اداروں کی سپورٹ حاصل کی جا رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا نیشنل جاب پروگرام، کامیاب جوان قرضہ سکیم، گھریلو خواتین کے لیے مرغی انڈا سکیم، یہ تمام وزیر اعظم عمران خان کی اُس معاشی پالیسی کا ثبوت ہے جس کے تحت ملک میں ایک کروڑ نوکریاں دلوانے کا دعوی کیا گیا تھا۔

یوسفزئی نے امید ظاہر کی اس سال بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔

پشاور یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے طالب علم محمد اکرام نے پاکستان میں بےروزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ بڑھتی آبادی بتائی۔

’مضحکہ خیز بات یہ ہے جو شخص بمشکل دو وقت کی روٹی کماتا ہے اس کی زیادہ اولاد ہوتی ہے، حکومت منصوبہ بندی کرتی ہے لیکن آخر کتنی منصوبہ بندی کرے جب کہ آبادی کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔‘

2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق زیادہ آبادی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے کیونکہ اس سے ملک اور عوام دونوں یکساں متاثر ہوتے ہیں اور یوں غربت اور احساس محرومی انہیں خوف ناک زندگی جینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان