پنجاب میں طالب علموں اور مریضوں کے لیے مفت انٹرنیٹ کی سہولت ختم

پنجاب حکومت کی جانب سے یہ سہولت پندرہ کروڑ روپے کا نادہندہ ہونے کے بعد بند کی گئی ہے

خٰیال  کیا جاتا ہے کہ طالب علموں نے اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھایا

­ پنجاب حکومت نے صوبے کے پانچ بڑے شہروں میں گزشتہ مالی سال کے دوران 200 سے زائد مقامات پر مفت انٹرنیٹ مہیا کرنے کی سہولت کا آغاز کیا تھا۔

 یہ انٹرنیٹ سروس وائی فائی ہاٹ سپاٹس کی صورت میں میسر تھی۔ پنجاب کے رہائشیوں کو یہ سہولت لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور بہاولپور کے مختلف مقامات پر میسر تھی۔ مری میں بھی 16 سے زیادہ مقامات پر انٹرنیٹ کی یہ سہولت مفت فراہم کی گئی تھی۔ 

پنجاب حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی مفت انٹرنیٹ کی یہ سہولت خاص طور پر تعلیمی اداروں، تفریح گاہوں، بازاروں، ہسپتالوں، ریلوے اسٹیشنوں، بس کے اڈوں اور ہوائی اڈوں پر مہیا کی گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق دو روز پہلے پنجاب حکومت نے یہ مفت انٹرنیٹ کی سہولت بند کر دی ہے۔ سہولت بند کرنے کی جو وجہ سرکاری ذرائع کی طرف سے سامنے آئی ہے اس کے مطابق حکومت کے پاس اتنے فنڈز موجود نہیں ہیں کہ وہ اس قسم کی ترجیحات کو مزید جاری رکھ سکے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے یہ سہولت پندرہ کروڑ روپے کا نادہندہ ہونے کے بعد بند کی ہے۔ یہ رقم پنجاب حکومت نے پی ٹی سی ایل کو ادا کرنی تھی۔

یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے رواں مالی سال کے دوران بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی تھی۔

 

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ  کے مطابق اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہسپتالوں کے اندر موجود مریض اور ان کے لواحقین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔

ان کے بعد دوسرے نمبر پر طالب علم اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس سہولت کو تعلیمی اور ضروری مقاصد تک محدود رکھنے کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے اس وائی فائی سہولت میں ویڈیو دیکھنے یا کوئی بھاری فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت میسر نہیں تھی۔ اس امر کے باوجود طالب علم اپنی روزمرہ کے تعلیمی کام انٹرنیٹ کی مفت فراہمی پر آرام سے حل کر لیا کرتے تھے اور ہسپتالوں میں موجود مریضوں کے لواحقین اپنے گھروں میں آسانی سے رابطہ کرلیا کرتے تھے۔

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب وائی فائی کی اس سہولت سے 14 لاکھ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا رہے تھے۔

انڈیپنڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں مزید جاننے کے لیے وٹرنری یونیورسٹی لاہور اور جامعہ پنجاب کے طالب علموں سے رابطہ کیا۔ ان کے مطابق اس سہولت سے یونیورسٹی کے عام طلبا تو فائدہ اٹھا ہی رہے تھے لیکن سب سے زیادہ ہاسٹل میں رہنے والے طالب علموں کے لیے یہ سہولت فائدہ مند تھی۔

ہاسٹل کے طلبا 24 گھنٹے کی اس سروس کے ذریعے اپنی تمام اسائمنٹس وقت پر مکمل کر لیتے تھے اور امتحانوں کی تیاری بھی ان کے لیے آسان تھی۔ گھر والوں سے رابطے کے لیے بھی ہاسٹل میں رہنے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد اسی سہولت پہ انحصار کرتی تھی۔

طالب علموں نے یہ بھی بتایا کہ اس سہولت کے بند ہو جانے سے انہیں مختلف تعلیمی ضروریات کے لیے موبائل کمپنیوں کے پیکجز پہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

اس صورتحال میں روزانہ یا ہفتہ وار بنیاد پر فی طالبعلم کم از کم چار سے پانچ سو روپے کا اضافی بوجھ ان کی جیبوں پر پڑ رہا ہے۔ نیز یہ کہ موبائل کمپنیوں کے سگنل بعض اوقات ہوسٹل میں ان کمروں تک مکمل نہیں پہنچ پاتے جہاں پہلے پنجاب حکومت کے وائی فائی سگنل بآسانی پہنچ جاتے تھے۔ طلبا کا یہ کہنا تھا کہ اس سہولت کو دوبارہ ضرور بحال ہونا چاہیے۔

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سابق چیرمین عمر سیف کے دور میں شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کے متعلق موجودہ چیئرمین حبیب الرحمن گیلانی کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے ماہرین اس پروجیکٹ کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ سہولت تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کے لئے دوبارہ بحال کردی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی کوم کمپنیز پہلے سے ہی انٹرنیٹ بہت زیادہ سستے داموں پر عوام کو مہیا کر رہی ہیں اور اس صورتحال میں یہ پروجیکٹ حکومتی خزانے پر ایک بوجھ تھا۔                               

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل