پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین اور انتہائی تجربہ کار سفارت کار شہریار خان ہفتے کو 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
شہریار خان کے انتقال پر پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔
محسن نقوی نے شہر یار خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔
بھوپال کے نواب خاندان سے تعلق
نوابزادہ شہریار محمد خان 1934 میں بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھوپال کے حکمران خاندان سے تھا۔ ان کے نانا نواب حمیداللہ خان بھوپال کے نواب تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بعد یہ وراثت شہریار خان کی والدہ شہزادی عابدہ سلطان کے حصے میں آنا تھی لیکن پاکستان سے محبت کی خاطر وہ بھوپال میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئیں اور کراچی میں ملیر کے علاقے میں ایک پارسی شخص سے چند ایکڑ زمین خرید کر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
شہزادی عابدہ سلطان کے پاکستان آجانے کے بعد شہریار خان کی خالہ ساجدہ سلطان بھوپال کی حکمران بنی تھیں۔ ساجدہ سلطان نے سابق ٹیسٹ کرکٹر افتخار علی خان پٹودی سے شادی کی تھی، جن کے بیٹے منصور علی خان پٹودی انڈیا کے کپتان تھے۔ اس لحاظ سے منصور علی خان پٹودی شہریار خان کے کزن تھے۔
شہریار خان کی تعلیم وتربیت میں ان کی والدہ شہزادی عابدہ سلطان کا عمل دخل نمایاں تھا، جنہوں نے انہیں تعلیم کے لیے اس وقت انگلینڈ بھیجا، جب ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔
شہریار خان کو انگلینڈ بھیجنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی والدہ برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر ہونے والے خون خرابے سے اپنے بیٹے کو بچانا چاہتی تھیں۔
کامیاب سفارت کار
شہریار خان 1957 میں پاکستانی دفتر خارجہ میں شامل ہوئے۔ وہ 1976 سے 1982 تک اردن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ انہوں نے 1987 سے 1990 تک برطانیہ میں سفیر کی ذمہ داری نبھائی جبکہ 1999 سے 2001 تک وہ فرانس میں بھی پاکستان کے سفیر رہے۔
شہریار خان 1994 سے 1996 تک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بطروس غالی کے خصوصی نمائندے کے طور پر روانڈا میں بھی ذمہ داریاں نبھاتے رہے تھے۔
وہ 1990 سے 1994 تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔
کرکٹ سے گہرا تعلق
شہریار خان نے کیمبرج میں زمانہ طالب علمی کے دوران باقاعدگی سے کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے کلب کرکٹ میں ایم سی سی، ہارنسی اور ومبلڈن کی نمائندگی بھی کی۔
1962 میں وہ ایم سی سی کی ٹیم میں بھی منتخب ہوگئے تھے لیکن دفتر خارجہ میں اپنے کیریئر کی وجہ سے وہ فرسٹ کلاس کرکٹ نہ کھیل سکے البتہ ان کی کلب کرکٹ جاری رہی تھی۔
شہریار خان کو 1999 میں انڈیا کا دورہ کرنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مینیجر مقرر کیا گیا تھا۔ ان دنوں انڈیا میں پاکستان کے بارے میں انتہا پسندی عروج پر تھی لیکن شہریار خان نے بڑی عمدگی سے اس دورے کو ہینڈل کیا۔ وہ 2003 کے عالمی کپ میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم کے مینیجر بھی تھے۔
2003 میں وہ پہلی مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ اس عہدے کے لیے صدر پرویز مشرف کو ان کا نام لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیا نے تجویز کیا تھا۔
شہریار خان کے دور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی۔ وہ کوچ کی حیثیت سے جاوید میانداد کی جگہ باب وولمر کو لے کر آئے تھے، تاہم انہیں چند تنازعات کا بھی سامنا کرنا پڑا، جن میں سب سے اہم اوول ٹیسٹ میں بال ٹیمپرنگ کا تنازع تھا۔
شہریار خان کو اس بات کا افسوس تھا کہ انہوں نے انضمام الحق کو کپتان بنایا تھا لیکن بال ٹیمپرنگ ٹیسٹ میں انہوں نے ان کے کہنے کے باوجود کھیل جاری رکھنے سے انکار کردیا تھا۔
شہریار خان نے اپنی کتاب میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے ہر قدم پر انضمام الحق کی حوصلہ افزائی کی لیکن انضمام الحق کی ہٹ دھرمی نے انہیں مایوس کیا۔ درحقیقت یہ پلیئرز پاور ان کے لیے ناقابل قبول تھی۔
شہریار خان کو اس بات کا بھی بہت افسوس تھا کہ یونس خان کو انہوں نے صرف چند منٹ انتظار کے لیے کہا تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے میڈیا کے سامنے جاکر کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
شہریار خان نے چیئرمین شپ کی مدت پوری ہونے سے تین ماہ پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر نسیم اشرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے، جو جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
وہ دوسری مرتبہ 2014 میں اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے جب نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان چیئرمین بننے کی عدالتی جنگ زوروں پر تھی۔ عام خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ شہریار خان چیئرمین تو بن گئے تھے لیکن نجم سیٹھی نے اپنے پاس زیادہ اختیارات رکھ کر انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔
پاکستان انڈیا کرکٹ روابط کے حامی
شہریار خان پاکستان انڈیا کرکٹ روابط کے زبردست حامی تھے۔ انڈین کرکٹ بورڈ کے سابق صدور راج سنگھ ڈونگرپور اور جگ موہن ڈالمیا سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ یہ دونوں شہریار خان کی بڑی عزت کرتے تھے۔
2004 میں انڈین کرکٹ ٹیم 14 سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئی تھی تو شہریار خان نے اپنے وسیع سفارتی تجربے اور ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے کرکٹ ڈپلومیسی کا خوبصورتی سے استعمال کیا تھا۔
دینا واڈیا کا دورۂ پاکستان
شہریار خان کے کریڈٹ پر یہ بات بھی ہے کہ وہ قائداعظم کی صاحبزادی دینا واڈیا کو پاکستان کے دورے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
دینا واڈیا نے شہریار خان کی درخواست کے جواب میں پاکستان آنے کی ہامی اس شرط پر بھری تھی کہ ان کا یہ دورہ مکمل طور پر غیر سرکاری ہوگا۔
وہ لاہور کے ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے موقع پر قذافی سٹیڈیم آئی تھیں۔
اس دورے میں کرکٹ ڈپلومیسی اتنی کامیاب ہوئی تھی کہ جے پور کی مہارانی پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی بھی پاکستان آئے تھے۔ اس دورے کے موقعے پر انڈیا سے شائقین کی بہت بڑی تعداد بھی پاکستان آئی تھی۔
پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر شیو شنکر مینن نے شہریار خان سے کہا تھا: ’شہریار صاحب، 20 ہزار انڈین شائقین یہ میچز دیکھنے پاکستان آئے اور آپ نے ان 20 ہزار کو پاکستانی سفیر بنا کر واپس انڈیا بھیجا۔آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ۔‘
معاملہ فہم شخصیت
شہریار خان نے سفارت کاری کے دوران جو سبق سیکھے تھے وہ انہیں کرکٹ کے امور چلانے میں بھی کام آئے۔ وہ انتہائی معاملہ فہم تھے اور انہیں پتہ ہوتا تھا کہ صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہے۔
2005 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انڈیا سے قبل وہ احمد آباد سے ٹیسٹ میچ منتقل کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ احمد آباد مسلم ہندو فسادات کا گڑھ ہے۔
اسی دورے میں انہوں نے جگ موہن ڈالمیا کو یہ باور کروا دیا تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم دھرم شالہ میں ہونے والے سائیڈ میچ کے موقع پر دلائی لامہ کو کسی صورت میں خوش آمدید نہیں کہے گی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اور چین کی دوستی خراب ہو۔
شہریار خان کی کامیاب سفارت کاری اور دوسرے کرکٹ بورڈز میں ان کے لیے موجود احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ کرکٹر محمد عامر کو 2016 کے دورے کے موقعے پر برطانیہ کا ویزا آسانی سے مل گیا تھا، جو عام حالات میں ملنا ممکن نہ تھا۔
بگ تھری کے مخالف
شہریار خان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں بننے والے بگ تھری گروپ کے سخت مخالف تھے اور اسے کرکٹ کے لیے تباہ کن سمجھتے تھے، حالانکہ اس زمانے میں نجم سیٹھی بڑھ چڑھ کر بگ تھری کی حمایت کر رہے تھے لیکن شہریار خان کا مؤقف بہت سخت تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بگ تھری سے کرکٹ کسی طور درست سمت میں نہیں جاسکتی۔ ان کا یہ موقف اس وقت درست ثابت ہوا جب اپریل 2017 میں آئی سی سی کے اجلاس میں سوائے انڈیا کے تمام رکن ممالک نے بگ تھری کے خلاف ووٹ دے دیا تھا۔
شہریار خان کو اپنے وسیع تجربے کی وجہ سے معاملات کو کبھی نرمی اور کبھی سختی سے نمٹنے کا فن خوب آتا تھا۔
وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ کرکٹ بورڈ کا کوئی رکن کمنٹری کرے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے پہلے دور میں چیف ایگزیکٹیو رمیز راجہ سے استعفیٰ طلب کرلیا تھا، تاہم اپنی کتاب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ مناسب متبادل ملنے تک انہیں رمیز راجہ سے مستعفی ہونے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
شہریار خان نے اپنی کتاب میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم الطاف کو کرکٹ بورڈ میں لانے کا ان کا فیصلہ غلط تھا۔
تصانیف
شہریار خان نے چھ کتابیں تحریر کی ہیں، جن میں ’بھوپال کی بیگمات،‘ ’دی شالو گریوز آف روانڈا،‘’کرکٹ اے برج آف پیس۔‘ ’میموآئرز آف ریبل پرنسز،‘ ’کرکٹ کالڈرون‘ اور ’شیڈوز ا کراس پلیئنگ فیلڈز‘ شامل ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔