قندیل بلوچ قتل: بھائی کو عمر قید، مفتی قوی بری

جج عمران شفیع کی عدالت نے قندیل بلوچ کہ بھائی کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے مفتی عبدالقوی سمیت دیگر ملزموں کو باعزت بری کر دیا۔

قندیل بلوچ 2016 میں لاہور پریس کلب میں (اے ایف پی)

پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں تین سال پہلے غیرت کے نام پر قتل کی گئی سوشل میڈیا سٹار اور ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ جمعے کو سنایا گیا جس میں مرکزی ملزم اور قندیل کے بھائی محمد وسیم کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

جج عمران شفیع کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کے تحت قتل کا اقبال جرم کرنے والے مقتولہ کے بھائی محمد وسیم کو عمر قید کی سزا ہوئی جبکہ مفتی عبدالقوی سمیت دیگر ملزمان حق نواز، اسلم شاہین، عبدالباسط اور ظفر اقبال کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا ہے۔

مقدمے میں شامل قندیل بلوچ کے ایک اور بھائی عارف کو عدالت پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

عدالت نے کہا ہے کہ ملزم محمد وسیم کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جمع کرانے اور اسے معاف کرنے پر دفعہ 302 کے تحت سزائے موت کی بجائے عمر قید کی سزا دی جا رہی ہے۔ قندیل کے والیدن نے اگست میں عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں، وسیم اور عارف، کو اللہ کی خاطر معاف کر دیا لہذا عدالت ان کو بری کرے۔

اس مقصد کے لیے قندیل بلوچ کے والدین کی جانب سے تحریری صلح نامہ بھی جمع کرایا گیا۔

ملتان کی سیشن عدالت میں اس کیس کی سماعت دو سال دس ماہ سے جاری تھی لیکن تیز ٹرائل کے لیے بننے والی ماڈل عدالت کو یہ کیس ایک ماہ پہلے بھیجا گیا۔ جس پر ماڈل عدالت نے گذشتہ روز 26 ستمبر کو تمام شہادتیں قلمبند ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیاتھا جو جمعے کو سنایا گیا۔ 

اس کیس کی سماعت 153 بار ہوئی اور اس میں 35 شہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملتان کے مظفر آباد تھانہ میں درج مقدمہ 439/16 میں مقتولہ کے والد مدعی تھے۔ تاہم بعد میں پولیس خود مدعی بنی کیونکہ والدین نے عدالت میں ملزم سے صلح نامہ جمع کرایا تھا اور کہا تھا انہوں نے اپنے بیٹے ملزم محمد وسیم کو معاف کردیا اور اسے رہا کردیا جائے۔

قندیل بلوچ کون تھیں؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہونے والی فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ انہیں میٹرک سے شوبز میں آنے کا شوق تھا لیکن ان کے گھر والے بدنامی کے ڈر سے ایسا نہیں چاہتے تھے لہذا والدین نے ان کی 2008میں اپنے قریبی عزیز عاشق حسین بلوچ سے 17 سال کی عمر میں شادی کر دی، جبکہ پاکستان میں شادی کی قانونی عمر 18سال ہے۔

قندیل بلوچ کی یہ شادی ایک سال ہی چل سکی جس دوران ان کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ ان کی والدہ کے مطابق قندیل نے اپنے شوہر کے رویے اور تنگ سوچ کے باعث ان سے علیحدگی اختیار کی تو گھر والوں نے بھی اسے اچھا نہیں سمجھا جس پر وہ لاہور آگئیں اور مختلف کمپنیوں کے لیے ماڈلنگ شروع کر دی اور ڈراموں میں بھی کام کا آغاز کیا۔

 

ان کے گھر والے ان سے ناراض تھے اسی لیے انہوں نے شوبز کی دنیا میں اپنی خاندانی پہچان چھپانے کے لیے اپنا نام قندیل بلوچ رکھا۔ وہ کافی خوش مزاج تھیں۔

سب سے زیادہ شہرت ان کو سوشل میڈیا پر ملی۔ مختلف شخصیات کے ساتھ سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ان کا شوق تھا۔ 2016 میں ان کی مختلف سیلفیاں اور ویڈیوز جب معروف عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی کے رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ان کو کافی شہرت ملی۔ مذہبی حلقوں میں اس معاملے پرمفتی صاحب کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی علما نے ان کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

قندیل بلوچ کو کیوں قتل کیا گیا؟

قندیل بلوچ کے والدین مظفر گڑھ چھوڑ کر ملتان میں رہنے لگے اور ان کی اپنی بیٹی سے بھی صلح ہوگئی تھی۔ ملتان کے تھانہ مظفر آباد میں درج مقدمے کے مطابق 15جولائی 2016 کی رات کو سوتے ہوئے ملزم محمد وسیم نے اپنی بہن فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کو تیز دھار چھری کے وار سے قتل کردیا تھا۔

ملزم نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ اس کی بہن ’ایسے کپڑے پہن کر ڈانس کرتی تھی جن میں آدھا جسم نظر آتا ہے اور ماڈلنگ کرتی تھی۔ اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھ کر سب محلہ دار اور عزیز واقارب مزاق اڑاتے تھے‘ لہذا اس نے اپنے بھائیوں اسلم شاہین اور عارف سے مشاورت کر کے قندیل بلوچ کو سوتے ہوئے قتل کر دیا۔

پولیس نے قندیل بلوچ کے ساتھ لی گئی مفتی عبدالقوی کی سیلفیوں، ویڈیوز اور موبائل پر رابطوں کے باعث انہیں بھی مقدمہ میں شامل تفتیش کیا تھا اور اس قتل میں ان کے بھی ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا تھا۔

قندیل بلوچ کی والدہ نوربی بی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ مفتی عبدالقوی نے ان کے بیٹوں کو پھنسوانے کے لیے ان کی بیٹی قندیل بلوچ کا قتل کرایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بیٹے بے گناہ ہیں۔ نور بی بی کے مطابق قندیل بلوچ اپنے بھائیوں اور والدین کو خرچہ بھی دیتی تھی اور انہیں اس کے قتل پر حیرانی ہوئی کیونکہ اس سے پہلے گھر میں بھائیوں کا اس سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔

قندیل کی 17 سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی جو ایک سال کے بعد طلاق میں ختم ہوئی۔ اس شادی سے ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان