سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو کہا کہ جب سے انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ہے ہائی کورٹ کے کسی ایک جج نے ان سے اپنے کام میں مداخلت کی شکایت نہیں کی۔
کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار کی ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی جج کے کام میں مداخلت ہوئی بھی ہے تو انہیں اس حوالے سے رپورٹ نہیں کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مداخلت قابل قبول نہیں، لیکن جو بھی واقعات رپورٹ ہوئے وہ ان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی حمایت میں مجھے لکھا، جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے ’عدالتی امور میں مداخلت‘ پر مارچ کے آخر میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیز عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ججز نے اس خط کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں، درخواست ہے کہ انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘
سپریم کورٹ نے خط کے معاملے کا از خود نوٹس لے کر سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، لیکن پہلی سماعت کے بعد بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس کی مزید سماعت سے معذرت کر لی۔
ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت اب 30 اپریل کو ہو گی۔
وفاقی حکومت نے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی ایک رکنی انکوائری کمیشن بھی بنایا تھا تاہم جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔