ججوں کے مشکوک خطوط پر سیاست نہیں کرنی چاہیے: وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس معاملے پر سیاست کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس پر سیاست کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کی تحقیق کروائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔

رواں ہفتے ہی سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے کئی ججوں کو مشکوک خطوط ملنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

منگل کو سائفر کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق نے انکشاف کیا تھا کہ ’ہم تمام ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جن میں انتھراکس (کی موجودگی) کا بتایا گیا ہے۔ خطوط میں بنیادی طور پر دھمکی دی گئی ہے۔‘

اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے عملے نے بتایا کہ ’چیف جسٹس عامر فاروق سمیت آٹھ ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جو ریشم اہلیہ وقار حسین نامی خاتون نے لکھے۔ خطوط پر خاتون کا ایڈریس موجود نہیں تھا۔‘

جس کے بعد اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا تاہم گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) شہزاد بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کے چار اور لاہور ہائی کورٹ کے بعض ججوں کو بھی سفوف سے بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری نے یہ انکشاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہونے سے متعلق سماعت کے دوران کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کا معاملہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں کابینہ کی منظوری سے انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی مشاورت اور ان کی مرضی سے کمیشن کو نوٹیفائی کیا گیا، جس کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) بھی نوٹیفائی کیے۔

بقول وزیراعظم: ’سپریم کورٹ نے پرسوں اس معاملے پر ازخود نوٹس کر لیا ہے، اب گیند ان کے کورٹ میں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے 25 مارچ کو عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

وفاقی حکومت نے ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ایک خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی انکوائری کمیشن بھی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم جسٹس تصدق جیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی، جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا، جس کی سماعت جاری ہے۔

آئی ایم ایف معاہدہ

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ ’اسی مہینے سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط مل جائے گی۔ وزیرخزانہ نئے معاہدے کے لیے آئی ایم ایف سے ملاقاتوں کے لیے اسی مہینے واشنگٹن جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نئے معاہدے سے معیشت میں استحکام آئے گا۔ نئے معاہدے کے خدوخال سامنے آئیں گے تو یقینی طور پر اس کی شرائط کوئی آسان نہیں ہوں گی۔ غریب آدمی اور ٹیکس دینے والے پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان