سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی خطوط ملے: پولیس

ڈی آئی جی (آپریشنز) اسلام آباد شہزاد بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سفوف سے بھرے مشکوک خطوط سپریم کورٹ اور پنجاب ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی موصول ہوئے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو موصول ہونے والا مشکوک خط جس میں انتھراکس کے متعلق بتایا گیا (فائل اسلام ہائی کورٹ)

وفاقی دارالحکومت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چار اور لاہور ہائی کورٹ کے بعض ججز کو بھی سفوف سے بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری نے یہ انکشاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہونے سے متعلق سماعت کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل ہنجاب نے لاہور کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط ملنے کی تصدیق کی، جب کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی ایسے ہی خط ملے ہیں۔

بینچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’ریشمہ تو پھر ججز کے لیے کوئی خصوصی چیز ہو گئی ہے، ریشمہ کون ہے کیا یہ بارڈر پار سے کوئی ہے؟‘

ججز کو موصول دھمکی آمیز خطوط کے معاملے پر بدھ کو ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ 

چیف جسٹس نے پولیس حکام سے مقدمے میں پیش رفت سے متعلق دریافت کیا جس پر ڈی آئی جی شہزاد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ کیمیکل معائنے کے لیے بھجوا دیے ہیں، جس کی رپورٹ تین سے چار دن میں آ جائے گی۔‘

عدالت نے دریافت کرنے پر کہ مشکوک خطوط کہاں سے پوسٹ ہوئے ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ ’اسٹیمپ نہیں پڑھی جا رہی۔ آج لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اسی نام سے خطوط ملے ہیں۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’آپ ابھی اسٹیمپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاک خانہ سے آئے ہیں؟ آپ دونوں افسران نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں؟‘

ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس نے کہا کہ ’خطوط پر اسٹیمپ مدھم ہیں مگر راولپنڈی کی اسٹیمپ پڑھی جاری ہے۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق نے جواباً کہا کہ میرے سیکریٹری نے پڑھ لیا ہے آپ کیوں نہیں پڑھ سکے؟‘

ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ بظاہر راولپنڈی جی پی او لگ رہا ہے، ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ لیٹرز راولپنڈی جی پی او سے آئے ہیں۔ جی پی او میں کسی لیٹر باکس کے ذریعے یہ لیٹرز پہنچے تھے۔ ہم لیٹر باکس کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لیٹرز پر بھجوانے والے کا نام ریشم اور کچھ پر ریشمہ لکھا ہوا ہے۔ سی ٹی ڈی نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’اسلام آباد پولیس ابھی 24 گھنٹوں تک کچھ بھی نہیں کر سکی، آپ کا ابھی تک صرف ناکوں پر کھڑے ہونے اور لوگوں کو تنگ کرنے کی عادت ہے۔ لوگوں کے منہ سونگھنے چھوڑ دیں اس سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ 24 گھنٹے گزر گئے اور ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ لیٹر پوسٹ کہاں سے ہوئے۔‘

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ ’اللہ مدد کرے گا۔‘ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’اللہ نے سب کی مدد کرنا ہے۔ ہم نے خود کچھ نہیں کرنا۔‘

گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سمیت آٹھ ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جو خط ریشم اہلیہ وقار حسین نامی خاتون نے لکھے ہیں۔

ریشم نامی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس درج کیے خطوط ہائی کورٹ ججز کو ارسال کیے۔

عدالتی عملے نے بتایا تھا کہ ’اسٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر سفوف تھا، جس سے آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی۔ متاثرہ اہلکار نے فوری طور پر سینیٹائزر استعمال کیا اور منہ ہاتھ دھویا۔‘ عملے نے کہا کہ ’خط کے اندر ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود ہے۔ ‘

سپریم کورٹ کے ججز کو بھیجے گئے دھمکی آمیز خط گلشاد خاتون کی جانب سے بھیجے گئے جبکہ ہائی کورٹس کے ججوں کے بھیجے گئے خطوط ریشما کی طرف سے ہیں۔

خطوط پر انسانی کھوپڑی کی تصویر بھی موجود ہے، جس کے نیچے دو ہڈیاں بھی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان