چھ ججوں کا خط: سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، تصدق جیلانی کمیشن سے علیحدہ

جسٹس (ر) تصدق جیلانی وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں یہ کہہ کر انکوائری کمیشن سے علیحدہ ہوئے ہیں کہ ججوں کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام تھا لہذا اس کی انکوائری بھی اسی فورم پر ہونا چاہیے۔

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے نام پیر کو ایک خط میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ اسلام آباد ہوئی کورٹ کے چھ ججوں کا خط جوڈیشل کمیشن کے نام تھا اور اس لیے یہ معاملہ اسی فورم پر اٹھایا جانا چاہیے۔ 

جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے خط میں مزید کہا کہ اگرچہ ہائی کورٹ ججوں کا خط پوری طرح آئین کے آرٹیکل 209 کا بھی نہیں بنتا اس لیے چیف جسٹس ادارہ جاتی سطح پر اس معاملے کو بہتر حل کر سکتے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا: ’ججوں کے خط میں آئینی مشاورت کا کہا گیا ہے۔ لہذا میں کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرتا ہوں۔‘ 

 

ازخود نوٹس

اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کا از خود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے سات ججوں پر مشتمل بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے، جس کی سربراہی وہ خود کریں گے۔

لارجر بینچ کے دوسرے اراکین میں جسٹس منصور علی شاہ، یحییٰ خان آفریدی، جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

سات رکنی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط سے متعلق از خود نوٹس کی پہلی سماعت تین اپریل کو دن ساڑھے گیارہ بجے کرے گا۔ 

ہائی کورٹ کے چھ ججز کا عدالتی امور میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر گزشتہ روز ملک بھر کے تین سو سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے اور سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے جس کی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔

جوڈیشل کمیشن

وفاقی حکومت نے ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے ایک خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی انکوائری کمیشن بھی بنایا ہوا ہے۔

کمیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ 

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے ایک اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟

کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیشن کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔ 

ججوں کا خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے رواں ہفتے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’انٹیلیجنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان