ججوں کے الزامات پر انکوائری کمیشن قائم، جسٹس (ر) تصدق جیلانی سربراہ مقرر

وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی اوآرز کی منظوری دے دی، جس کے تحت کمیشن الزامات کی مکمل چھان بین کرتے ہوئے تعین کرے گا کہ یہ درست ہیں یا نہیں۔

سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) تصدیق حسین جیلانی (ورلڈ جسٹس پراجیکٹ)

حکومت پاکستان نے ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے ایک خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی انکوائری کمیشن بنا دیا۔

آج وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار (ٹی اوآرز) کی بھی منظوری دی۔

ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن ججز کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ 

اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟ کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔

کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔ 

کابینہ کے اجلاس نے خط میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔

کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973 میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے عدلیہ کی آزادی اور دستوری اختیارات کے تقسیم کے اصول پر کامل یقین رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کابینہ کو اس خط کے بعد اپنے مشاورت اور چیف جسٹس پاکستان سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا۔

کابینہ نے وزیراعظم کے فیصلوں اور اب تک کے اقدامات کی مکمل توثیق وحمایت کی۔

چھ ججز کا خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے رواں ہفتے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’انٹیلیجنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

ججوں نے اس خط کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے کہا کہ ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججوں کو دھمکانا عدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘

وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات

خط سامنے آنے کے بعد جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی۔

ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم بھی شریک تھے۔

ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ملاقات کی سنجیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی، اس طرح کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’وہ اپنی آئینی ذمہ داری سے ضرور سرخرو ہوں گے اور یہ یقین دہانی کروائی کہ حکومت کا فرض ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے اور اگر یہ باتیں درست ہیں تو مستقبل میں یہ یقینی بنایا جائے کہ ایسی نوبت نہ آئے۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کا اختیار ہے کہ کمیشن آف انکوائری کے تحت اس معاملے کی انکوائری کرے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’کوئی نیک نام، غیر جانب دار ریٹائر شخصیت اس کمیشن کی سربراہی کرے اور قانون اور ضابطے کے مطابق انکوائری کرے اور رپورٹ مرتب کرے۔‘

وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی انکوائری کمیشن پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

فل کورٹ کا اجلاس

خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی فل کورٹ کا اجلاس بلایا تھا، جس کے بعد ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے دوران ’پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017‘ کے تحت الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کی منظوری لیں گے۔

اعلامیے کے مطابق ملاقات کے دوران ’چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالتی امور اور کارروائی میں ایگزیکٹیو کی مداخلت برادشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

اعلامیے کے مطابق: ’چیف جسٹس آف پاکستان کو 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے ایک خط موصول ہوا اور 26 مارچ 2024 کو خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے اسی دن چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں رات آٹھ بجے چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر بلایا۔

’ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں تمام ججوں کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا گیا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’اگلے دن 27 مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کی اور اس کے بعد چیف جسٹس نے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کے سینیئر ترین رکن سے ملاقات کی۔

’پھر اسی دن شام چار بجے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام ججوں کا فل کورٹ اجلاس بلایا گیا۔ فل کورٹ اجلاس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے بھیجے گئے خط میں اٹھائے گئے نکات پرغور کیا۔

’فل کورٹ میں ججوں کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ صورت حال کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس وزیراعظم سے ملاقات کریں۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کا ردِعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ مشاورت کے بعد کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک رکنی انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے نام کا اعلان کیا ہے جسے تحریک انصاف مسترد کرتی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان