عدالتی معاملات میں انتظامیہ کی مداخلت برداشت نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات میں کہا ہے کہ ججوں کے معاملات اور عدالتی کام میں انتظامیہ کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات 28 مارچ 2024 کو اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوئی (سپریم کورٹ آف پاکستان)

سپریم کورٹ نے جمعرات کی رات ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات میں کہا ہے کہ ججوں کے معاملات اور عدالتی کام میں انتظامیہ کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

اعلامیے کے مطابق ’چیف جسٹس آف پاکستان کو 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔ 26 مارچ 2024 کو مذکورہ خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے اسی دن چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں رات آٹھ بجے چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر بلایا۔

’ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں تمام ججز کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا گیا۔ اگلے دن 27 مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کی، اور اس کے بعد چیف جسٹس نے سینیئر  جج جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کے سینیئر ترین رکن سے ملاقات کی۔

’پھر اسی دن شام چار بجے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام ججز کا فل کورٹ اجلاس بلایا گیا۔ فل کورٹ اجلاس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے بھیجے گئے خط میں اٹھائے گئے نکات پر غور کیا۔ فل کورٹ میں  ججوں کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ صورت حال کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس وزیراعظم سے ملاقات کریں۔

’جمعرات دوپہر دو بجے 28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان کے ہمراہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس، سینیئر جج منصور علی شاہ اور سپریم کورٹ کی رجسٹرار سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔

’چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ججوں کے معاملات اور عدالتی کام میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ چیف جسٹس اور سینیئر  جج منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی ستون ہے جو قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھتا ہے۔

’وزیراعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن بنانے کے بارے میں بات کی گئی، وزیراعظم نے چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ کے خیالات سے پوری طرح اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے، آج ججز فل کورٹ اجلاس میں تمام ججوں کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔‘

انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس کی تشکیل کا فیصلہ کابینہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی تھی۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں جسٹس منصور علی شاہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ملاقات کی سنجیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی، اس طرح کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔‘

بقول وزیر قانون: ’وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’وہ اپنی آئینی ذمہ داری سے ضرور سرخرو ہوں گے اور یہ یقین دہانی کروائی کہ حکومت کا فرض ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے اور اگر یہ باتیں درست ہیں تو مستقبل میں یہ یقینی بنایا جائے کہ ایسی نوبت نہ آئے۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’اس کی چھان بین ہونی چاہیے، کل کابینہ کا اجلاس ہے تو ان کا اختیار ہے کہ کمیشن آف انکوائری کے تحت اس کی انکوائری کریں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’کوئی نیک نام، غیر جانبدار ریٹائرڈ شخصیت اس کمیشن کی سربراہی کرے اور قانون اور ضابطے کے مطابق انکوائری کرے اور رپورٹ مرتب کرے۔‘

وزیر قانون نے اس عزم کا ابھی اظہار کیا کہ حکومت ایک آئینی طریقہ کار سے چل رہی ہے اور ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے امور انجام دیتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ادارہ جاتی منافرت نہیں ہونی چاہیے اور اس کے لیے حکومتی فرائض وہ ادا کرتے رہیں گے۔

وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی انکوائری کمیشن پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

تحریکِ انصاف کا ردِ عمل

دوسری طرف تحریکِ انصاف نے کمیشن بنانے کے حکومتی اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔

تحریکِ انصاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت کے ماتحت کام کرنے والے سینیئر ججوں کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان یا کسی اور سیاست دان کے خلاف عدالتی فیصلے حاصل کرنے کے لیے نجی زندگی کی جاسوسی کرنے کا الزام لگانا دراصل حکومت کے خلاف ہی چارج شیٹ ہے، لہٰذا موجودہ حکومت کی جانب سے انکوائری کمیشن کی تشکیل ایک متنازع صورت حال سے بچنے کے لیے رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘

لہٰذا پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کو اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اٹھایا جائے، جن کے پاس یہ اس معاملے کی سماعت کا اختیار ہے، اور جس کا چھ سینیئر جج پہلے ہی مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس سے نہ صرف موجودہ غیر یقینی صورت حال کی فضا کے دوران عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا، جہاں عدلیہ بادی النظر میں ان قوتوں کے زیر اثر نظر آتی ہے جو مقبول ترین رہنما کو سیاسی عمل سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔

 ججوں کے خط کا معاملہ: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ختم

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر فل کورٹ اجلاس دوبارہ طلب کر لیا، جس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شریک ہوئے۔

یہ اجلاس جمعرات کی سہ پہر چار بجے کے قریب شروع ہوا اور لگ بھگ ایک گھنٹہ 50 منٹ جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔ 

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی تھی۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں جسٹس منصور علی شاہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی موجود تھے۔

بدھ کو ایک اہم پیش رفت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کا ایک اجلاس طلب کیا تھا، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سیاسی کیسوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے الزام پر مبنی خط پر غور کیا گیا تھا۔

تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں چیف جسٹس کے علاوہ 14 ججوں نے شرکت کی تھی، تاہم اجلاس کے اختتام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

خط کے معاملے پر اسلام آباد کی وکلا تنظیموں نے کل چیف جسٹس سے نہ صرف معاملے کا ازخود نوٹس لینے بلکہ مبینہ مداخلت کی تحقیقات کروا کر ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی بھی استدعا کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے مختلف سیاسی کیسوں میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے جوڈیشل کنونشن کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنے خط میں ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں، درخواست ہے کہ انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججوں کو دھمکانا عدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے۔ ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘

خط کے معاملے پر تین رکنی ججز کمیٹی کا مطالبہ

پاکستان بار کونسل نے بدھ کو سپریم کورٹ کے کم از کم تین رکنی ججز پر مشتمل کمیٹی بنا کر معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس کی تشکیل کردہ تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی انکوائری کرے، خط میں جن خدشات کو اجاگر کیا گیا وہ درحقیقت سنگین ہیں۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ معاملے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان خدشات کو دور کرنے کی مجاز اتھارٹی سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ چیف جسٹس  پاکستان ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے خلاف شکایات کا ازالہ کرنے کا فورم ہے۔

ججوں کے الزامات پر ازخود نوٹس لیا جائے: سیکریٹری سپریم کورٹ بار کونسل

سپریم کورٹ بار کونسل کے سیکرٹری نے بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک خط کے ذریعے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ معاملہ چونکہ عوامی نوعیت کا ہے، لہذا ججوں کے خط اور ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر آرٹیکل 184/3 کے تحت ازخود نوٹس لیا جائے۔

 مزید کہا گیا کہ یہ عدالتی نظام اور عدلیہ کے وقار پر حملہ ہے، اس لیے اس کی سماعت بھی براہ راست نشر کی جائے۔ اس کے علاوہ ازخود نوٹس میں ان تمام نامور صحافیوں کو بھی نوٹس کیے جائیں جنہیں صحافتی معاملات میں ایسی مداخلت کاسامنا رہا ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے بھی بدھ کو ایک اجلاس کے بعد چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ ججوں نے جو مداخلت کے الزامات لگائے ہیں، اس معاملے کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے ایک اعلامیے میں عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی مذمت کی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر سنجیدہ کارروائی کی ضرورت ہے، عدلیہ کی آزادی متاثر کرنے والے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق: ’سپریم کورٹ بار قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے، عدلیہ اور ججوں کی نجی زندگی میں مداخلت پر کارروائی بھی ہونی چاہییے۔‘

خط پر ہائی پاور کمیشن بنانے کی درخواست

خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے لیے میاں داود ایڈوکیٹ کی درخواست میں ہائی پاور کمیشن قائم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ خط میں لگائے گئے الزامات کی انکوائری کے لیے ہائی پاور کمیشن تشکیل دیا جائے اور انکوائری میں جو بھی مس کنڈیکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

درخواست میں اہم نوعیت کے مقدمات اسلام آباد سے دیگر ہائی کورٹس کو منتقل کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’ہائی کورٹ ججز کا خط اعترف ہے کہ وہ حلف کے مطابق بے خوف و خطر کام نہیں کر پا رہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات بھی زیر التوا ہیں، یہ تمام مقدمات دیگر صوبائی ہائی کورٹس کو منتقل کئے جائیں چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز انصاف فراہمی جیسا حساس کام اس وقت نہیں کر سکتے۔‘

درخواست میں نکتہ اٹھایا گیا کہ ’ججوں کے خط میں بظاہر پی ٹی آئی کے بیانیے والا ہی تاثردینے کی کوشش کی گئی کیونکہ خط سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا مہم بھی چلائی، پی ٹی آئی چیف جسٹس ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان پر عدم اعتماد کرتی رہی ہے، ججوں کے خط کی بنیاد پر چیف جسٹس ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کے خلاف پھر مہم چل رہی ہے۔‘

’ججوں کا خط پاکستان کے انتطامی امور پرایک چارج شیٹ‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کو پاکستان کے انتطامی امور پر ایک ’چارج شیٹ‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے اور اس کی فوری سماعت کی استدعا کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ کو اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’کوئی ایک، دو یا تین نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج اس دباؤ سے متاثر ہوئے۔

’ایک جج نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میرے بچے کہاں ہیں، ایک جج نے کہا کہ میرے بیٹے کا ولیمہ ملتوی کروایا گیا، اس قسم کے فیصلے دیے گئے، جس کے ٹرائل کے درمیان جرح کی اجازت نہیں تھی، شواہد پیش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ ہم دلائل کے لیے گئے لکن جج نے فیصلہ سنا دیا۔ ابھی فیصلہ بھی نہیں آیا کہ عمران خان کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا دیا گیا۔‘

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہم باضابطہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ججوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، جن ججوں نے خط لکھا، ان کے اہل خانہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ جوڈیشل کمیشن کے تحت اس کی انکوائری فوری شروع کی جائے۔‘

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’جو منصف بیٹھے ہیں، وہ خود اپنی داستان سنا رہے ہیں کہ وہ انصاف کے طلب گار ہیں، اگر اس خط پر کارروائی نہ ہوئی تو لوگوں کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔‘

بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ آج ہی لارجر بینچ تشکیل دے اور کل سے اس کی سماعت شروع کرے۔‘

دوسری جانب پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے کہا کہ 25 مارچ کو لکھا گیا خط پاکستان کے انتطامی امور پر ایک چارج شیٹ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں اٹھائیں گے۔

’ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی‘

ادھر مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پانچ سال تک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں ایک لفظ تک نہ بولنے والوں کے ضمیر اچانک کیوں جاگ گئے ہیں، نو مئی کے ملزمان کے تحفظ کے لیے مخصوص جماعت کی سہولت کاری کی جا رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بظاہر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج نے اپنے سے جونیئر ججوں پر اثر انداز ہو کر یہ خط لکھوایا ہے، جس کا محرک کوئی اور ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان