پاکستان بار کونسل کا چیف جسٹس کے استعفے کا مطالبہ مسترد، کمیشن کی حمایت

پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

نو اگست، 2016 کی اس تصویر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں وکلا ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک ہیں(تصویر: اے ایف پی)

پاکستان بھر کے وکلا کی تنظیم پاکستان بار کونسل نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے استعفے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔

ہفتے کو پاکستان بار کونسل سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات کی تحقیقات وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں طے کردہ فورم پر ہی کرائی جائے۔‘

اعلامیے میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی بطور سربراہ کمیشن تعیناتی کی بھی حمایت کی گئی۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’کسی دوسرے ادارے کو عدلیہ میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان بار کونسل اور وکلا برادری چیف جسٹس پاکستان اور عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم ہائی کورٹ ججز کے حوالے سے چیف جسٹس پر تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔‘

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ججز کو پرائیویسی فراہم کرنا اور ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘

پاکستان بار کونسل کے اعلامیے کے مطابق ’ بار کونسل ایک سیاسی جماعت کی جانب سے چیف جسٹس کے استعفے کے مطالبے کی بھی مذمت کرتی ہے۔‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان بار کونسل غور و فکر کے لیے جلد ہی جنرل باڈی اجلاس بلائے گی۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں کمیشن قائم

حکومت پاکستان نے ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے ایک خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی انکوائری کمیشن بنا دیا۔

ہفتے کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار (ٹی اوآرز) کی بھی منظوری دی۔

ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن ججز کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ 

اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟ کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔

کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کر سکے گا۔ 

کابینہ کے اجلاس نے خط میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔

کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973 میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔

چھ ججز کا خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے رواں ہفتے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’انٹیلیجنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

ججوں نے اس خط کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے کہا کہ ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججوں کو دھمکانا عدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘

وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے اس خط کے سامنے آنے کے بعد جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم بھی شریک تھے۔

ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ملاقات کی سنجیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی، اس طرح کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔‘

فل کورٹ کا اجلاس

خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی فل کورٹ کا اجلاس بلایا تھا، جس کے بعد ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے دوران ’پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017‘ کے تحت الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان